باغی ٹی وی : ڈیرہ غازیخان (سپیشل رپورٹ) رودکوہی سیلاب کو آئے ہوئے تقریباََ دو ماہ ہوچکے ہیں اس سیلاب نے تونسہ کے علاقہ بستی چھتانی ،گیدڑوالا سمیت کئی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ،کئی انسان سیلابی ریلے میں بہہ کر لقمہ اجل بن گئے ،جن کی لاشیں کئی دنوں بعد ملیں،ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر تھے جو اب تک موجود ہیں ۔یہ سیلاب اب تقریباَ َ ختم ہوچکا ہے لیکن اپنے پیچھے کئی کہانیاں اور سوالات چھوڑ گیا ہے ۔سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ سیلاب قدرتی تھا یا کسی انسانی غلطی یا خود غرضی اس کی وجہ بنی،اس کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں،آئیے آپ کو لیے چلتے ہیں تونسہ کے علاقہ گٹا کُھردک یا مہوئی والا گٹا (بند)۔تاریخ میں پہلی باراس علاقے سیلاب آیا اوربند ٹوٹا جس نے بہت بڑے سانحے کو جنم دیا ۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں کے بااثر افراد سیف اللہ ولد حاجی صدیق ،حیدر ولد شاہل کھردکی جنہیں پی ٹی آئی کے مقامی ایم پی اے اور ایم این کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ان لوگوں نے گٹا کھردک کے ساتھ واقع سرکاری رقبہ اور شاملات پر قبضہ کیاہوا ہے ۔ان لوگوں نے بند کے قدرتی راستے کے درمیان دو پشتے بنواکر قبضہ کیا گیا سرکاری رقبہ کو سیراب کرنے کیلئے اپنی مرضی سے تبدیل کیا اور غیر قانونی کھالا بنایا ۔آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان بننے کے بعد اس وقت ایک آفیسر ملک عبدالعزیز کوریہ نے بیلوںکے ذریعے یہ بند بنوایا ،1987-88میں سردار امجد فاروق کھوسہ نے 20لاکھ روپے کی گرانٹ منظور کرائی اورپھر ہر دوسال بعداس کی مرمت کی جاتی رہی لیکن گذشتہ تین سال سے اس بند کی مرمت نہ ہوسکی ۔دو سال قبل اس بندکی مرمت کیلئے سرکار نے ایک بلڈوزر بھیجا ،مقامی لوگوں کے مطابق اس بلڈوزر کو بااثر لینڈ مافیا نے کا م نہ کرنے دیا رودکوہی دروغہ آیا لیکن اس کی بھی ایک نہ چلی، پھر رودکوہی تحصیلدار سرور ملغانی آیا جس نے لینڈ مافیا سے بکرے کی دعوت کھائی اور دس ہزار روپے نقد نذرانہ وصول کیا پھر انہیں سرکاری بلڈوزر کے ذریعے بند کاڈیزائن تبدیل کرنے کی کھلی اجازت دے دی ،جس سے بااثر افراد قبضہ شدہ رقبہ پر پانی لے جانے میں کامیاب ہوگئے اورفصلات کاشت کرنے لگے۔
دوسرا ظلم اس مافیا نے یہ کیا کہ اس بند پر ہزاروں کی تعداد میں درخت لگے ہوئے تھے،اس مافیاء نے سرکاری عملے کی ملی بھگت سے درخت لاکھوں روپے میں فروخت کردیے،رودکوہی کے راستے پر چھوٹے بند بنا کر ان میں فصلیں کاشت کرلی گئیں، اس سال بارشیں کچھ زیادہ ہوگئیں اور یہ منی ڈیم بھی پانی سے بھر گیا ،مسلسل چھیڑ چھاڑ ،فزیکل تبدیلی ،درختوں کی کٹائی اور بروقت بند کی مرمت نہ ہونے سے یہ بند پانی کا دباؤ برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا ۔
٭۔اب سوال یہ ہے کہ کئی قیمتی انسانی جانیں اس سیلاب کی نذر ہوگئی ان ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے ؟
٭۔سینکڑوں خاندان سیلا ب سے متاثر ہوئے ان کے گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ان کے ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا ؟
٭۔ ڈپٹی کمشنر یا کمشنر ڈیرہ غازیخان سیاسی دباؤ سے نکل کر آزادانہ تحقیقات اور ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کر سکیں گے ؟
٭۔کیا سپریم کورٹ آف پاکستان کے محترم چیف جسٹس صاحب اس انسانی المیہ پر سوموٹو ایکشن لیں گے ؟
جوکہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ؟؟؟؟؟؟
Shares: