دہشت گرد کون؟ مودی، آر ایس ایس یا مسلمان؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
25 اپریل 2025 کو بھارت کے معروف سابق بیوروکریٹ، سابق رکنِ راجیہ سبھا اور آل انڈیا ریڈیو و دوردرشن کے سابق سی ای او جوہر سرکار نے ایک ایسی ٹویٹ کی جو محض ایک بیان نہیں بلکہ بھارتی سماج کے بگڑتے ہوئے مزاج پر ایک گہرا سوال بن کر ابھری۔ یہ ٹویٹ وادیٔ کشمیر کے خوبصورت مقام پہلگام میں پیش آنے والے دہشت گرد حملے کے پس منظر میں کی گئی، جہاں کچھ غیر مسلم سیاح دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ حملے کے دوران جن لوگوں نے ان سیاحوں کو بچایا، حملے کے دوران سب سے پہلے جان دینے والا ایک مسلمان تھا،زخمیوں کو اپنی پیٹھ پر لاد کر محفوظ مقام تک پہنچایا، ابتدائی طبی امداد دی، ایمبولینسیں چلائیں، ہسپتالوں میں علاج کروایا اور پھر سری نگر تک ان کی بحفاظت روانگی کو یقینی بنایا، وہ سب مسلمان تھے۔ جوہر سرکار نے نہایت درد مندی سے لکھا کہ ان سیاحوں کو پہلگام لانے والے ڈرائیور مسلمان تھے، جن ہوٹلوں میں وہ رکے وہ مسلمان چلا رہے تھے، ان کے کھانے کا بندوبست مسلمانوں نے کیا، ان کی سیر کا اہتمام مسلمانوں نے کیا، اور جب خطرہ آیا تو وہی مسلمان آگے بڑھے اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ان سیاحوں کو بچایا۔ اس تمام واقعے کے باوجود بھارت کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک ہی فقرہ گردش کرتا رہا کہ "تمام مسلمان دہشت گرد ہیں۔”
یہ فقرہ صرف بھارتی مسلمانوں کی توہین نہیں بلکہ بھارت کے اس سیکولر اور جمہوری چہرے پر بدنما داغ ہے جسے دنیا کبھی گاندھی، نہرو اور امبیڈکر جیسے رہنماؤں کے نظریات کی روشنی میں دیکھتی تھی۔ مگر آج بھارت ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں نفرت اور فرقہ واریت کو نظریاتی بنیاد فراہم کرنے والی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کے سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پورے سماج میں زہر گھول دیا ہے۔ آر ایس ایس جو بھارت کو ایک خالص ہندو ریاست بنانے کا خواب دیکھتی ہے، برسوں سے مسلمانوں کو ایک "اندرونی دشمن” کے طور پر پیش کرتی آئی ہے۔ ان کے نظریہ ساز ایم ایس گوالوالکر نے اپنی کتاب "Bunch of Thoughts” میں واضح طور پر کہا تھا کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ بھارت کے لیے خطرہ ہیں اور یہی فکر اب بی جے پی کی حکومتی پالیسیوں میں جھلکتی ہے۔
مودی سرکار کے قیام کے بعد اس بیانیے کو ادارہ جاتی تحفظ ملا۔ گائے کے گوشت کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات، "لو جہاد” کا جھوٹا پروپیگنڈا، تبلیغی جماعت کو کووڈ-19 کا ذمہ دار ٹھہرانا، شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور این آر سی جیسے اقدامات اور دہلی فسادات میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا ، یہ سب اس بات کے ثبوت ہیں کہ بی جے پی حکومت نے آر ایس ایس کے نظریے کو ریاستی پالیسی کی صورت دے دی ہے۔ 2002 کے گجرات فسادات میں مودی کا کردار آج بھی عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنتا ہے مگر بھارت کے اندر انہیں ایک "فیصلہ کن رہنما” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، چاہے اس کی قیمت کروڑوں بھارتی مسلمانوں کے حقوق اور سلامتی سے کیوں نہ چکائی گئی ہو۔
میڈیا جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں ریاست کا احتساب کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے، بھارت میں نفرت کا سب سے بڑا سہولت کار بن چکا ہے۔ معروف نیوز اینکرز حب الوطنی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ 2020 میں تبلیغی جماعت کے خلاف جھوٹا بیانیہ تیار کر کے انہیں "وائرس بم” قرار دیا گیا اور ایک منظم مہم کے ذریعے پورے ملک میں مسلمانوں کو کورونا پھیلانے والا قرار دے دیا گیا۔ بعد ازاں عدالتوں نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا مگر تب تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ 2023 میں بین الاقوامی اداروں اور صحافتی تنظیموں نے بھارتی میڈیا پر الزام لگایا کہ وہ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی کو فروغ دے رہا ہے اور کئی اداروں نے بھارتی نیوز چینلز کا بائیکاٹ کیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
ایسے ماحول میں پہلگام کے مسلمانوں کا کردار اس اندھیرے میں امید کی ایک کرن ہے۔ اگر مسلمان واقعی دہشت گرد ہوتے تو وہ غیر مسلم سیاحوں کو بچانے کے بجائے انہیں نقصان پہنچاتے مگر انہوں نے یہ ثابت کیا کہ انسانیت، ہمدردی اور قربانی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ اقدار ہیں جو کسی بھی باشعور فرد کے ضمیر سے پھوٹتی ہیں۔ ان لوگوں نے نہ صرف جانیں بچائیں بلکہ بھارت کو ایک پیغام دیا کہ سچائی کیا ہے اور کون اصل محب وطن ہے۔ ان کی قربانیاں صرف انسان دوستی کی نہیں بلکہ بھارت کی اجتماعی بیداری کی ایک کوشش تھیں۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کے اکثریتی معاشرے نے ان مسلمانوں کی قربانیوں کو سراہنے کے بجائے ایک مرتبہ پھر وہی پرانا راگ الاپنا شروع کیاکہ "تمام مسلمان دہشت گرد ہیں۔” یہ جملہ دراصل بھارت کے بکھرتے ہوئے ضمیر کی عکاسی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر بحران میں بھارت کا ساتھ دیا، چاہے وہ 2008 کے ممبئی حملے ہوں یا کووڈ-19 کی وبا، مگر پھر بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں نے خوراک، طبی امداد اور بنیادی ضروریات کی ترسیل میں اہم کردار ادا کیا، باوجود اس کے کہ انہیں روکا گیا، دھمکایا گیا اور نشانہ بنایا گیا۔
جوہر سرکار کی ٹویٹ صرف ایک سوال نہیں بلکہ بھارت کے ضمیر کے لیے ایک آئینہ ہے۔ یہ آئینہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا بھارت میں کوئی سچ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا بھارتی یہ ماننے کو تیار ہیں کہ دہشت گردی کسی مذہب کی شناخت نہیں بلکہ ایک ذہنیت کا نام ہے؟
یہ لمحہ بھارت کے لیے فیصلہ کن ہے۔ اگر اب بھی سچائی، انسانیت اور عدل کو نہ اپنایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب بھارت کے زخم صرف اقلیتوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورا ملک ان کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ جوہر سرکار جیسے لوگوں کی آواز کو آگے بڑھانا ہوگاکیونکہ سچ بولنے کی ہمت وہی کرتے ہیں جن میں انسانیت اورانسانی اقدار زندہ ہوتی ہے اور عالمی اداروں کو بھارتی سرکار کی مکاریوں ،ظلم وبربریت کا نوٹس لینا ہوگا ورنہ آرایس ایس کے ہندوتواکے زیراثر مودی اینڈ کمپنی دنیا کا امن تباہ برباد کردےگی.