ا صل لٹیرا کون ؟ محمد بن قاسم یا راجہ داہر—-تحریر:—- اویس خان سواتی

آپ جب بھی برصغیر کے مسلم فاتحین کا ذکر کریں گے تو ایک طبقہ ان فاتحین کو بیرونی غاصب اور لٹیرے وغیرہ اور ان کے مقابل مقامی ہندو راجاؤں کو اس دھرتی کا سپوت اور اصل وارث قرار دے گا۔۔۔ آپ محمد بن قاسم کا ذکر کریں تو یہ راجہ داہر کی مدح سرائی کرنے لگیں گے۔ آپ محمود غزنوی کا ذکر کریں تو یہ راجہ جے پال اور راجپوتوں کی مظلومیت کا رونا رونے لگیں گے۔ آپ ترک اور افغان سلاطین کا ذکر کریں تو یہ انہیں ڈاکو قرار دیں گے۔ آپ اورنگزیب عالمگیر کا نام لیں تو یہ مراٹھوں اور سکھوں کا رونا روئیں گے۔ آپ احمد شاہ درانی کا نام لیں تو یہ اسے ظالم درندہ قرار دیں گے۔۔۔۔ اور اگر آپ رنجیت سنگھ کی درندگی کی طرف انکی توجہ مبذول کروائیں تو یہ طبقہ اسے ہندوستان کا جری سپوت قرار دے گا۔

مانا کہ عرب، ترک، افغان، مغل اور فارسی ہند کے مقامی باشندے نہیں۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا راجہ داہر سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام راجے مہاراجے ہند کے حقیقی وارث اور اصل باشندے تھے؟

جواب ہے کہ نہیں! اسے سمجھنے کے لیے ہند میں موجود اقوام کی تاریخ کا مختصر تعارف کروانا ضروری ہے۔

سو عرض ہے کہ ہندوستان میں اڑھائی ہزار قبلِ مسیح دراوڑ نسل آباد تھی۔ اور پھر وسطی ایشیاء سے یہاں آریا نسل وارد ہوئی کہ جن نے دراوڑوں کو جنوبی ہند کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ آرئین آگے بڑھتے ہوئے شمالی ہند میں گنگا کے دو آب تک پہنچے۔ تب ان کے سماجی نظام میں تبدیلیاں آئیں اور ان نے عوام کو پیشے کے مطابق مندرجہ ذیل تین فرقوں یا ذاتوں میں تقسیم کر دیا:

آریائی نسل میں حکومت جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی وہ ”شَتّریے“ کہلائے، جنہیں کھشتری یا چھتری بھی کہا جاتا ہے۔ راجا مہاراجے اور فوجی انہی میں سے ہوتے تھے۔

آریائی نسل کے مذہبی رہنما پُروہِت کہلائے کہ جو مذہبی امور کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راجاؤں کو مذہبی اور سیاسی مشورے بھی دیتے تھے۔ براہمن دراصل پروہت ہی ہیں۔

آریائی نسل میں کھیتی اور تجارت کا کام کرنے والے عام لوگ ’’وَیشیہ‘‘ کہلاتے تھے۔

جبکہ ’’شُودْر‘‘ ان لوگوں کو کہا گیا کہ جن کی رگوں میں آریائی خون شامل نہیں تھا اور جو آریوں کے مذہب اور رنگ سے منفرد تھے۔۔۔ آریائی نسل کے لوگ انہیں گھٹیا اور کمی کمین مانتے تھے۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔

یعنی کل ملا کر کہانی کچھ یوں ہے کہ باہر سے ایک نسل حملہ آور ہوئی اور اس نے مقامی لوگوں کو مار کوٹ کر دیوار سے لگا دیا اور پھر خود کو دو حصوں یعنی شتریہ اور پروہت یا کھشتری و براہمن میں تقسیم کیا۔ اور مقامی لوگوں کو شودر قرار دیا۔ یعنی کمی کمین اور خادم۔۔۔
لیکن یہاں کہانی میں تھوڑا ٹوسٹ ہے۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ دراوڑ نسل کہ جو آریا کے آنے سے قبل ہند کے حاکم تھے، اور آج کل جنوبی ہند اور سری لنکا میں کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں، بھی یہاں کے قدیم ترین باشندے نہیں، باہر سے آئے ہوئے ہیں۔۔۔
اکثر مورخین و ماہرین اس بات پہ متفق ہیں کہ ہند کے قدیم ترین باشندے "کولا” نسل کے لوگ ہیں۔ کہ جن کے ساتھ حملہ آور دراوڑوں نے وہی سلوک کیا کہ جو آریا نے انکے کے ساتھ کیا تھا۔ بلکہ شاید اس سے بھی برا۔۔۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی ہندوستان میں آپ کو مختلف دراوڑی زبانیں اور دراوڑ نسل کے قوم قبیلے کروڑوں کی آبادی میں مل جائیں گے۔ لیکن کولا نسل کا کوئی خاص نشان آپ کو نہیں ملے گا سوائے دو قوموں یعنی بھیل و سنتھال کے۔ کہ جنہیں اچھوت قرار دیا گیا کہ جو شودر کے بعد کا درجہ ہے۔۔۔۔

لیکن ماہرین کی ایک جماعت کا یہ بھی ماننا ہے کہ کولا نسل بھی ہند میں باہر سے آئی ہوئی ہے۔۔

___________

یعنی ماشاءاللہ سے سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔۔۔۔ راجہ داہر کشمیری براہمن تھا۔ یعنی آریائی، نہ کہ سندھی! راجہ جے پال و دیگر ہندو راجے مہاراجے، حتیٰ کہ مراٹھے اور راجپوت۔۔۔ سب کے سب یا تو براہمن تھے یا کھشتری۔۔۔۔ یعنی جن راجوں مہاراجوں پہ مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا، وہ سب غاصب آریاؤں کی اولاد تھے۔ اور آریائی نسل نے جس دراوڑ نسل پہ غلبہ حاصل کیا وہ بھی غاصب تھی۔۔۔۔ اور دراوڑوں نے جن "کولوں” کو مغلوب کیا تھا وہ بھی باہر سے ہی آئے تھے۔۔۔

تو ایسے میں سوال ہے کہ بیرونی غاصب اور لٹیرے صرف مسلمان فاتحین ہی کیوں؟؟؟

مسلمانوں نے تو ظالم غاصب آریائی نسل پہ فتح حاصل کی اور ان کے بنائے ذات پات اور اونچ نیچ کے ظالمانہ اور غیر انسانی طبقاتی نظام کا اپنے زیر انتظام علاقوں میں خاتمہ کیا۔۔۔

تو پھر مسلم فاتحین سے نفرت کیوں؟

جواب صاف اور واضح ہے۔۔۔ کہ محمد بن قاسم کی فتح کے بعد جب براہمن، کھشتری اور ویشیا ہندوؤں نے دیکھا کہ جنہیں ہم شودر، ملیچ اور اچھوت کہتے تھے۔ کہ جو ہمارے سامنے ننگے پاؤں چلنے، پگڑی نہ باندھنے اور جھکنے کے پابند تھے، انہیں مسلمانوں نے ہمارے برابری کے حقوق دے دیے ہیں تو ان میں اس وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی اور ان نے مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا، مسلمانوں کے مظالم کی کہانیاں گھڑیں۔ یہ قصے کہانیاں سینا بہ سینا نسل در نسل منتقل ہوتی گئیں۔۔۔ اور آج بھی اونچی ذات کے ہندوؤں میں زبان زدِ عام ہیں۔ اور اب تو اس میں مذھب کا تڑکا بھی لگ گیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ مسلم فاتحین کی تحقیر کرتا نظر آتا ہے، ایسا کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ ان مسلمانوں میں اکثریت ان جہلاء کی ہے کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کے نسل درنسل پھیلائے گئے پراپیگنڈے سے متاثر ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کی نسل میں سے ہیں کہ جن نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن ان کے لاشعور میں تاحال طبقاتی عصبیت موجود ہے اور وہ آج تک اپنے آباء کے گھڑے گئے جھوٹ کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے۔

اور ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے کہ جو برائے نام مسلمان ہیں کہ جنہیں ہم سیکولر کہتے ہیں۔۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ انہیں اپنے مسلمان ہونے کا افسوس ہے، لیکن چونکہ یہ لوگ معاشرتی مجبوریوں کے باعث اسلام سے رشتہ نہیں توڑ سکتے۔۔۔ لہذا اپنی فرسٹریشن اسلام سے منسوب ہر اس شے پہ نکالتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے نزدیک معتبر و محترم ہو۔۔۔ اور ایسا کر کے یہ خود کو روشن خیال اور اعتدال پسند باور کرواتے ہیں، حالانکہ ان سے بڑا جاہل اور ہٹ دھرم کوئی اور نہیں۔ کہ آریائی نسل کے ظالم راجے مہاراجے انکے نزدیک مظلوم ہیں لیکن مسلم فاتحین غاصب و لٹیرے کہ جن نے ان راجوں مہاراجوں کے ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا۔

ا صل لٹیرا کون ؟ محمد بن قاسم یا راجہ داہر—-تحریر:—- اویس خان سواتی

Comments are closed.