بھارت کے ایٹمی پروگرام پر پابندی کیوں ضروری؟
تحریر :ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
15 مئی 2025 کو بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سری نگر میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پر سوالات اٹھائے اور مطالبہ کیا کہ انہیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں جو کہ بھارت کی جانب سے خطے میں کشیدگی بڑھانے کی ایک اور کوشش تھی۔ پاکستان نے اس بیان کی شدید مذمت کی اور اسے غیر ذمہ دارانہ اور بھارت کی ناکام دفاعی حکمت عملی اور عدم تحفظ کا مظہر قرار دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ ریمارکس حالیہ بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے موثر دفاع کے بعد نئی دہلی کی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے بھارت کے ایٹمی مواد کی مسلسل چوری اور سمگلنگ کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارت کی ایٹمی تنصیبات اور مواد کی سکیورٹی کا جائزہ لیا جائے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی پروگراموں پر تنازعات کی طویل تاریخ ہے، لیکن راج ناتھ سنگھ کا تازہ بیان سیاسی مقاصد اور اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ بھارت کا ایٹمی پروگرام بار بار حفاظتی خامیوں کی وجہ سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ مئی 2021 میں مہاراشٹر میں 21 کروڑ روپے مالیت کا تابکار یورینیم پکڑا گیا، جس کی تصدیق بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر نے کی۔ 1994 میں رومانیہ میں 4.55 کلوگرام یورینیم ٹیٹرا کلورائد اور 2.5 کلوگرام یلو کیک کے ساتھ ہندوستانی شہری گرفتار ہوئے۔ 1984 سے اب تک یورینیم کی چوری کے 153 کیس رجسٹر ہو چکے ہیں جو عالمی سطح پر ایک تشویشناک ریکارڈ ہے۔ 2021 میں دھرادون میں بھابھا سینٹر سے چوری شدہ ایک تابکار آلہ اور 10 کروڑ ڈالر مالیت کے کیلی فورنیم کی چوری کے تین واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ ہندوستان ٹائمز نے نیپال کی سرحد سے یورینیم سمگلنگ کی کوشش کو بے نقاب کیا جسے بھارتی حکام نے چھپانے کی کوشش کی۔

بھارت کے ایٹمی ری ایکٹروں کی حالت بھی ناقص ہے۔ 1986 میں مدراس اٹامک پاور سٹیشن میں دراڑیں پڑیں، جنہیں آئی اے ای اے سے چھپایا گیا۔ 1988 میں بھاری پانی کے اخراج اور 1991 میں دھماکے سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ ناروڑا پلانٹ میں ناقص مواد کی وجہ سے آگ لگی، کاکڑا پور کا کنکریٹ گنبد گر گیا اور تری پور پلانٹ کے اردگرد 3,000 گاؤں تابکار پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ حیدرآباد کے نیوکلیئر فیول کمپلیکس میں دھماکے کے بعد بھارت نے آئی اے ای اے کے معائنوں سے انکار کیا، جس پر ایجنسی نے بھارت کے ایٹمی بجلی گھروں کو غیر محفوظ قرار دیا۔ بھارت میں انڈر ورلڈ کی مضبوط گرفت ایٹمی مواد کی چوری اور سائنسدانوں کے اغوا میں ملوث ہے۔ 2006 میں ممبئی کے قریب ایک ایٹمی کنٹینر غائب ہو گیا اور 18 ماہ تک 7 سے 8 کلوگرام یورینیم ایک سائنسدان کی تحویل میں رہا بغیر کسی کو خبر ہوئے۔

اس کے برعکس پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمی معیارات کے مطابق محفوظ ہے۔ 2000 میں قائم نیشنل کمانڈ اتھارٹی، اسٹریٹجک پلان ڈویژن اور پاک فوج ایٹمی اثاثوں کی حفاظت یقینی بناتے ہیں۔ نیوکلیئر سیکیورٹی انڈیکس 2020 کے مطابق پاکستان نے ایٹمی مواد کی چوری کے خلاف اقدامات میں 25 پوائنٹس کی بہتری دکھائی جو عالمی سطح پر سب سے بڑی کامیابی ہے۔ آئی اے ای اے نے پاکستان کے ایٹمی مراکز سے تابکاری کے اخراج کی خبروں کی سختی سےتردید کی۔ پاکستان نے اپنی روایتی دفاعی صلاحیتوں سے بھارت کو روکنے کی صلاحیت ثابت کی ہے اور اسے بھارت کی ایٹمی بلیک میلنگ کی ضرورت نہیں۔

راج ناتھ سنگھ کا بیان جموں و کشمیر کے تنازع اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں خطے میں کشیدگی بڑھانے کی کوشش ہے۔ 7 مئی 2025 کو بھارت نے آپریشن سندور کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پنجاب پر میزائل حملے کیے، جسے بھارت نے پہلگام حملے کا جواب قرار دیا۔ پاکستان نے ان حملوں کو شہری علاقوں پر حملہ قرار دیتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے جوابی کارروائی کی۔ اس تنازع کو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پہلی ڈرون جنگ کہا جا رہا ہے۔ پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے بھارت کی جارحیت کی مذمت کا مطالبہ کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے جنگ بندی ہوئی لیکن بھارت کی پسپائی نے اس کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

بھارت کے ایٹمی پروگرام کی خامیوں سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھتا ہے کیونکہ چوری شدہ مواد سے "ڈرٹی بم” بنایا جا سکتا ہے۔ ہندو انتہا پسند گروہوں کی موجودگی اس خطرے کو مزید سنگین بناتی ہے۔ بھارت نے آئی اے ای اے کے معائنوں سے انکار اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، لیکن مغربی ممالک کی خاموشی سیاسی مفادات کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان نے مطالبہ کیا کہ بھارت کے ایٹمی اثاثوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور اس کی ایٹمی سپلائرز گروپ کی رکنیت معطل کی جائے۔ آئی اے ای اے کو بھارت کی تنصیبات کا معائنہ کرنا چاہیے.

بھارت کے ایٹمی پروگرام کی مسلسل خامیوں، یورینیم کی چوری، تابکار مواد کی سمگلنگ اور غیر محفوظ ری ایکٹروں سے عالمی سلامتی کو سنگین خطرہ ہے۔ راج ناتھ سنگھ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان پر الزامات لگا کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ہیں، جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام نیوکلیئر سیکیورٹی انڈیکس 2020 اور آئی اے ای اے کی تصدیق کے مطابق محفوظ ہے۔ بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیموں تک حساس مواد کی رسائی اور آئی اے ای اے کے معائنوں سے انکار عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مغربی ممالک کی خاموشی سیاسی مفادات کی عکاسی کرتی ہے لیکن انسانیت کے تحفظ کے لیے بھارت کے ایٹمی پروگرام پر فوری پابندی ناگزیر ہے۔ آئی اے ای اے کو شفاف تحقیقات اور ایٹمی سپلائرز گروپ کو بھارت کی رکنیت معطل کرنی چاہیے، ورنہ اس کی غیر ذمہ داری عالمی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

Shares: