جب بھٹو زندہ ہے، تو دیہی سندھ کیوں لاوارث ہے؟
میرپورماتھیلو سے مشتاق علی لغاری کی ڈائری
ضلع گھوٹکی کی تحصیل میرپورماتھیلو کے نواحی گاؤں خدا بخش لغاری تک پہنچنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ کچی سڑکیں ہر طرف گرد اور دھول اڑا رہی ہیں، جیسے وقت خود یہاں ٹھہر گیا ہو۔ دیواروں پر آج بھی ’’جیئے بھٹو‘‘ کے نعرے درج ہیں، مگر انہی نعروں کے بیچ میں بسنے والی زندگیاں خاموش احتجاج بن چکی ہیں۔

تقریباً پانچ ہزار ووٹروں پر مشتمل یہ گاؤں کئی دہائیوں سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں۔ نہ فلٹر پلانٹ ہے، نہ بورنگ، نہ ٹینکی۔ عورتیں اور بچے کلومیٹر دور سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں راستے کیچڑ میں ڈوب جاتے ہیں، مگر پیاس برقرار رہتی ہے۔

صحت کی سہولتیں بھی ناپید ہیں۔ نہ کوئی ڈاکٹر، نہ ڈسپنسری، نہ دوائی۔ زچگی یا معمولی بیماری کی صورت میں مریضوں کو میرپورماتھیلو یا گھوٹکی لے جانا پڑتا ہے اور اکثر راستے میں جان چلی جاتی ہے۔ بزرگوں کے چہرے پر خوف نہیں، مایوسی لکھی ہے۔

پرائمری سکول کی عمارت بوسیدہ ہے۔ ٹوٹے دروازے، غائب کھڑکیاں اور خالی کمروں میں صرف خاک اڑتی ہے۔ استاد کبھی کبھار آتے ہیں۔ بچے کھیتوں میں مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں اور لڑکیاں تعلیم کے خواب دیکھنے سے پہلے ہی ہار مان لیتی ہیں۔ ایک مکین کا کہنا ہےکہ “ہمارا مستقبل اندھیرے میں ہے، ہم صرف ووٹ دینے کے دن یاد کیے جاتے ہیں۔”

نکاسی آب کا کوئی نظام نہیں،گلیوں میں گندے پانی کے جوہڑ، بدبو، مچھر اور بیماریوں کا راج ہے۔ ڈینگی اور ملیریا کے مریض بڑھ رہے ہیں، مگر کوئی سپرے ٹیم کبھی نہیں آئی۔ گاؤں کی گندگی سیاست کے وعدوں کا مذاق اڑاتی دکھائی دیتی ہے۔

گاؤں خدابخش لغاری کے ایک بزرگ ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں کہ “کیا ہم صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ بھٹو زندہ ہے، مگر ہمارا گاؤں مر چکا ہے۔” ان کے الفاظ درد سے بھرے ہیں اور آنکھوں میں امید کے بجائے خالی پن ہے۔

گاؤں کے اردگرد کھیت اجڑے ہوئے ہیں۔ کبھی لہلہاتی فصلیں تھیں، اب پانی کی کمی نے زمین چٹخا دی ہے۔ نہری نظام ناکام، ٹیوب ویل بند اور مزدوری کے لیے شہروں کا رخ کرنے والے ہاتھ خالی لوٹتے ہیں۔ سیاستدان صرف انتخابات کے موسم میں ان راستوں کو پہچانتے ہیں۔

میرپورماتھیلو اور گھوٹکی کے درمیان زندگی جیسے رکی ہوئی ہے۔ ترقی کے وعدے ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں اور بھٹو کے نعرے اس دھرتی کی خاموش چیخوں میں دب گئے ہیں۔ اگر واقعی بھٹو زندہ ہے تو دیہی سندھ اتنا لاوارث کیوں ہے؟ یہ سوال ہر دروازے سے اٹھتا ہے، ہر صحن سے گونجتا ہے۔

گاؤں کے مکین روزانہ بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ صاف پانی ہر خاندان کے لیے خواب بن چکا ہے۔ عورتیں اور بچے بالٹیاں اٹھائے میلوں چلتے ہیں، ان کی صحت برباد ہو رہی ہے۔ کچی سڑکوں پر روز حادثات ہوتے ہیں۔ بارش میں راستے بند اور گاؤں دنیا سے کٹ جاتا ہے۔

نہ صحت کا کوئی مرکز ہے، نہ سکول فعال ہیں۔ بچے کھلے آسمان تلے پڑھتے ہیں، اگر استاد آ جائے تو۔ لڑکیوں کی تعلیم کو اب بھی غیرضروری سمجھا جاتا ہے۔ صفائی کا حال یہ ہے کہ ہر گلی کیچڑ اور بدبو سے بھری ہے، ہر گھر بیماریوں سے گھرا ہوا ہے۔

غربت، بیماری اور بے بسی نے گاؤں والوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ لوگ قرض میں ڈوبے ہیں، مزدور کم اجرت پر محنت کر رہے ہیں اور زندگی صرف گزاری جا رہی ہے۔ ہر گھر میں سوال ہے کہ کیا ہمارا کام صرف ووٹ دینا ہے؟ کیا وعدے ہمیشہ کاغذوں میں دفن رہیں گے؟

گذشتہ کئی سالوں میں کسی منتخب نمائندے یا افسر نے اس گاؤں کا حال نہیں پوچھا۔ کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ عوام کا صبر اب ختم ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وعدوں پر نہیں، عمل پر یقین چاہیے۔

گاؤں کے باسی صاف پانی، صحت، تعلیم اور سڑکوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ واٹرفلٹر یشن پلانٹ، بورنگ سسٹم، ڈسپنسری اور سکولوں کی مرمت فوری کی جائے۔ لڑکیوں کی تعلیم اور صفائی کے نظام کو ترجیح دی جائے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ وعدے اب تحریروں سے نکل کر حقیقت بنیں۔

ان کا پیغام واضح ہے کہ خاموشی ختم ہو چکی ہے۔ اگر اب بھی حکومت، سیاستدان اور افسران نے توجہ نہ دی تو عوام جمہوری طریقے سے اپنی آواز بلند کریں گے۔ گاؤں خدا بخش لغاری اب مزید وعدوں پر نہیں جئے گا، وہ حق مانگے گا ، اپنے انسانی وقار، بنیادی سہولیات اور انصاف کے حق کے لیے۔

یہ گاؤں اب انتظار نہیں کرے گا۔ یہ گاؤں اٹھ چکا ہے، تاکہ بھٹو کے زندہ ہونے کا مفہوم صرف نعرہ نہ رہے، بلکہ انسانوں کی زندہ حالت میں نظر بھی آئے۔

Shares: