سات سال بھی بیت گئے اور عدالت عظمیٰ کا نفاذ اردو کا فیصلہ اور حکم بھی کاغذات اور فائلوں کی دبیز تہوں میں دفن ہی رہا۔پاکستان کے منصف اعظم کی کرسی پر محض چند دن کے لیے متمکن ہونے والے منصف جواد ایس خواجہ نے اپنے وداع کے دن یہی آخری فیصلہ سنایا تھا کہ”آئین کا حکم پورا کیا جائے اور اردو کو فوری اور ہر سطح پر مکمل نافذکر دیا جائے۔”
ویسے کیسی حیرت کی بات ہےکہ ہر سطح پر نفاذ اردو حضرت قائد اعظم کا بھی حکم تھا جنہوں نے ڈھاکا میں کھڑے ہوکر فرمایا تھا کہ” ہماری قومی و سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہو گی اور جو کوئی اس پر آپ کو گمراہ کرے گا وہ آپ کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔”پھر 1948، 1956 ،1961 اور پھر 1973 کا آئین بنا تو ہر جگہ اردو کو قومی و سرکاری زبان تسلیم کیا گیا اور موجودہ آئین میں واضح طور پر دفعہ251 کی شق 1 میں لکھا گیا کہ 15 سال کے اندر اندر قومی زبان اردو کو ہر سطح پر لاگو اور نافذ کر دیا جائے گا لیکن افسوس در افسوس یہ بھی نہ ہو سکا۔
اسی پر پاکستان کے حقیقی محب و درد مند نفاذ اردو کی درخواست لے کر 2003 میں عدالت عظمیٰ پہنچے اور قائد اور آئین کا حکم پورا کرنے کے لیے التجائیں کیں لیکن یہ درخواستیں ریکارڈ روم کا حصہ بن گئیں تاآنکہ جواد ایس خواجہ نے 2015 میں انہیں وہاں سے کھوج نکالا اور پھر عمل درآمد کا حکم دیا۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ حضرت قائد ،آئین اور عدالت عظمیٰ بلکہ اس کے منصف اعلیٰ تک کا حکم سب کچھ 75 سال سے پاؤں تلے روندا جا رہا ہے اور کسی کو یہاں کوئی توہین آئین شکنی یا توہین عدالت و جج یا آئین کی یوں پامالی جو غداری بھی ہے معمولی بھی نظر نہیں آتی۔
ابھی ہم نے چند ماہ پہلے دیکھا کہ اسی عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم نے کراچی میں بیسیوں غریب و بے کس لوگوں کا آشیانہ نسلہ ٹاور کس بے دردی سے ریزہ ریزہ کروا دیا کہ حضور کا اقبال بلند رہے اور حکم نافذ ہوتا نظر آئے اور یہ سب ہو گیا لیکن اگر کسی حکم پر کبھی عمل نہیں ہوا تو وہ نفاذ اردو کا معاملہ ہے۔
یہ کتنی کھلی حقیقت ہے جو ہم آج تک سمجھ نہیں سکے یا سمجھنے پر تیار نہیں کہ قوم کو جاہل اجڈ اور غیر ترقی یافتہ رکھنے میں سب سے بڑی وجہ اردو کا نافذنہ ہونا ہے لیکن ہم اس کو ماننے پر تیار نہیں۔ پوری دنیا پر نگاہ دوڑا لیں، ہر ترقی یافتہ قوم آپ کو اپنی زبان ہی پڑھتی،اس میں پڑھاتی اور سیکھتی سکھاتی ملے گی سوائے ہمارے بدقسمت ایک ملک کے۔
براعظم یورپ میں 28 ملک گنے جاتے ہیں لیکن سوائے برطانیہ کے کسی کی زبان انگریزی نہیں اور سب کا نظام شاندار و مثالی اور بہترین چل رہا ہے.
جاپان ہو یا چین، روس ہو کوریا،سارا یورپ ہو یا ترکی بلکہ ان سے بھی آگے ایران تک میں سب کا سب کچھ ان کی اپنی مقامی زبانوں میں ہے،جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی وہ بھی سیکھتے ہیں، اور وہ ہم سے کتنے آگے ہیں؟ بتانے کی ضرورت نہیں اور ہم عقل کے سارے پردوں کو تالے لگا کر اور اپنی زبان اردو چھوڑ کر انگریزی کی پوجا میں مصروف بلکہ اس گوری ماتا کے قدموں میں اپنی ساری نسل کو ذبح کر رہے ہیں، کیونکہ فیل ہونے کو جو مضمون رکھا گیا ہے وہ انگریزی ہی تو ہے۔
یہ بھی حقیقت کتنی بار کر ہم دیکھ چکے اور جب گزشتہ حکومت نے سارا نظام تعلیم مکمل انگریزی کیا تو تاریخ میں سب سےزیادہ طلبہ فیل ہو کر ہمشیہ کے لیے ناکارہ قرار پا گئے، وجہ؟ صرف بدیسی زبان انگریزی۔
ذرا سوچئیے کہ
اگر وہ سب ملک سب کچھ اپنی زبانوں میں پڑھ سیکھ بول کر آگے جا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟
چند دن قبل مجھے ایک سیاح کی بنگلا دیش میں سیاحتی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا تو وہ بتا رہا تھا کہ یہاں سب گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بنگلا زبان میں ہیں اور مجھے سمجھنے میں شدید دقت پیش آرہی ہے۔
جی ہاں ، یہ بات ہے بنگلا دیش کی اور کسی کو دقت ہوتی ہے ہوتی رہے بنگلادیش لیکن اسی روش پر قائم ہے جس پر سب ترقی یافتہ و مہذب قومیں عمل پیرا ہیں اور آج ہمارے ہاں سمیت ہر جگہ اسی بنگلا دیش کی ہی تو مثالیں دی جاتی ہیں کہ اس نے یہ کمال کردیا، وہ کردیا اتنی ترقی کر لی اتنا آگے نکل گیا، لیکن اس کے اس پہلو پر کوئی غور نہیں کرتا۔
اردو وہ زبان ہے کہ جو آج دنیا میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھی مجموعی طور پر دوسری بڑی زبان قرار دی جاتی ہے اور باقی سب لوگ تو اسے پانچ بڑی عالمی زبانوں میں ضرور شامل کرتے ہیں اور یہ کیفیت قیام پاکستان سے بہت پہلے کی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جدید علوم بغیر انگریزی کے کیسے حاصل کریں ؟ لیکن انہیں اپنے سے بہت چھوٹے لیکن بہت ترقی یافتہ ، ہالینڈ ، پولینڈ ناروے کے ساتھ ترکی اور ایران نظر نہیں آتے جو یہ سب کچھ اپنی زبانوں میں کررہے ہیں،ہم نے انگریز کی غلامی کی ، اس نے ہم پر انگریزی لادی ، اس کا سو ڈیڑھ سو سال اور آزاد کے بعد 75 سال گزار کر بھی ہم میں آج کتنے ہیں جنہیں انگریزی ٹھیک آتی ہو ؟
حال یہ ہے کہ پاکستان کا 90 فیصد میڈیا اردو میں ہے اور جو دو انگریزی چینل شروع ہوئے تو ان میں ایک چند ماہ بعد بند اور دوسرا اردو ہو گیا، کہ یہ سب ہمارے ہاں بدیسی ہے،ہم نے اردو کو چھوڑا، انگریزی کو اپنایا اور حال یہ ہے کہ باہر نکل کر دیکھیں بالکل صحیح و درست انگریزی شاید ہی کسی کو آتی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ اس کا ہمارے معاشرے و سماج اور ہمارے رگ و پے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ اگر آج بھی ہم اردو کو مکمل نافذ و رائج کر دیں تو قوم بہت تیزی سے آگے جا سکتی ہے اور ہم نے جو قابلیت کا معیار انگریزی کو بنایا ہے اس سے جب نجات ملے گی تو بے شمار ٹیلنٹ ضائع نہیں ہو گا بلکہ ہمارے کام آئے گا۔ ہماری اگلی نسل لفظوں سطروں کی رٹو نہیں بنے گی بلکہ علم سیکھے گی،
بطور مسلمان یہ بھی یاد رکھیں کہ عربی کے بعد دین کی تحقیق و تحریرکا سب سے زیادہ کام اردو میں ہوا ہے اور شاید جلد پہلے نمبر پر ہو گا جب کہ انگریزی میں تو اس کا پاسنگ بھی نہیں۔
اردو ایسی کمال زبان ہے کہ گورے بھی اسے بہت جلد وباآسانی سیکھ لیتے ہیں جب کہ انگریزی کا حال بتانے کی ضرورت نہیں۔اسی ضمن کی ایک اور بات،
اردو دنیا کی وہ باکمال زبان ہے کہ جس میں دنیا کی ہر زبان کے حروف و حرکات ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جب کہ اسے چھوڑ کر سب کچھ انگریزی ماتا کے حوالے کرنے والے یاد رکھیں کہ عربی زبان کے اکثر حروف و حرکات کا متبادل انگریزی میں ہے ہی نہیں اور یوں ہماری اگلی نسلیں کلمہ طیبہ تک ٹھیک نہیں پڑھ پائیں گی اور یہ ہم دیکھ بھی رہے ہیں ۔
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی شدید کمی ہے تو انگریزی کے غلام تیار کرکے ہم اپنا بچا کھچا ٹیلنٹ بھی باہر کی دنیا کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ برین ڈرین ہورہا یعنی قابل لوگ اور قابلیت باہر جا رہی ہے،یہ تو ہونا ہی ہے جب آپ نے اپنا آپ سمجھا ہی نہیں تو نتیجہ یہی تو ہوگا۔
آج کی دنیا کی سب سے بڑی معاشی و ترقی یافتہ طاقت چین نے تو اپنے ملک میں صرف اپنی زبان رکھی ہے اور انگریزی پر مکمل پابندی ہی عائد کی ہوئی ہے، اب بتائیے کہ وہ اتنی زیادہ اور انتہائی تیز رفتار ترقی کیوں کر رہا ہے؟ ویسے ہم نے اگر بدیسی زبان ہی اپنانی ہے تو انگریزی ہی کیوں ؟ چینی کیوں نہیں ؟ جو دوست بھی ہے اور دروازے پر بھی۔ لیکن اصل میں ہم جن کے غلام بن چکے ان سے نجات چاہتے بھی نہیں۔
کمال حیرت کی ایک اور بات سنیں کہ ہمیں انگریزی کا غلام رکھنے کے لیے سب سے زیادہ تعلیمی فنڈ و معاونت جرمنی اور ہالینڈ دیتے ہیں جن اپنے ہاں انگریزی ہے ہی نہیں۔ یوں غلامی کی تہ در تہ چادریں پر ہم تن کر سخت سے سخت ہی ہوئے جا رہی ہیں۔
اللہ کرے ہمیں آج بھی کچھ سمجھ آ جائے