حکومت جائے گی یا وزیراعظم؟—از–راوفیصل
نومبر کے آغاز میں مولانا فضل الرحمان اپنا لشکر لیکر شہر اقتدار میں پہنچے اور اعلان کیا کہ وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر ایوان سے گھسیٹ کر باہر نکالیں گے ان کا غصہ ولولہ اور حوصلہ دیکھ کر پورے ملک میں ہلچل ہوئی ٹی وی پروگرامز میں ایک ہی موضوع پر بحث تھی کہ مولانا آگیا ہے اور اب یا تو حکومت جائے گی یا پھر وزیراعظم جائیں گے
یہ تماشہ دو ہفتے تک جاری رہا مولانا کے حمایتی اور حزب اختلاف کے سب سے بڑے دھڑے بھٹو زرداری اور شریف خاندان پیچھے ہٹ گئے انہوں نے موقع غنیمت جانا اور اپنے مفادات پر سودے بازی کر کے حکومت کے خلاف اٹھنے والے اس طوفان سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس کے بعد مولانا کا بنا بنایاکھیل بگڑگیا وہ پلان اے کے بعد بی اور پھر پلان سی کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے
سیاسی بساط پر چودھریوں نے اپنی چال خوب چلی بظاہر یوں دکھائی دیا کہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ شہہ کو مات دینے کی پوزیشن میں ہیں لیکن وہ ریاستی اداروں کے ارادوں سے واقف تھے اسی لئے انہوں نے اپنی سیاست کو سیدھا کیا حکومت کی نظر میں اپنی قدر بڑھائی اور آنیوالے وقت میں اپنے مطالبات حکومت سے تسلیم کروائے
دسمبر انتہائی سرد رہا اور ہواؤں کے رخ کی تبدیلی کے اشارے بھی دئیے گئے
بلاول نے یکم جنوری سے پہلے نئے وزیراعظم کی نوید بھی سنائی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن گھٹنوں کے بل آ گری نون لیگی بیانیے کے غبارے سے ہوا نکل گئی ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ برباد ہوا اور لیگی قیادت لندن کھسک گئی
جنوری میں ایک بار پھر حکومت کے گھر جانے کی باتیں بڑھ گئیں اکثر اہم ترین محفلوں میں بڑی بڑی شخصیات کو کہتے سنا کہ مئی تک حکومت چلی جائے گی اتحادیوں کی ناراضگی اور بڑھتے مطالبات اور پھر مہنگائی کے زلزلے سے حکومت لڑکھڑاتی بھی دکھائی دی لیکن آٹے اور چینی کے بحران سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم نے جارحانہ فیصلہ کیا اور پہلی بار اس مافیا کو للکارا جو ان کی پانی صفوں میں موجود ہے
جہانگیر ترین جو ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں اور حکومت بنانے میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے انہیں چینی اور آٹے کے بحران سے جوڑا جانے لگا تو وزیراعظم نے فوری طور پر جہانگیر ترین کو اتحادیوں سے دور کیا اور ساتھ ہی اعلان کردیا کہ وہ کسی مافیا کو اب نہیں چھوڑیں گے جلد ہی اس انکوائری کا بھی نتیجہ سامنے آجائے گا اگر اس بار وزیراعظم مہنگائی کے ذمہ داروں کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گئے تو یقینی طور پر نہ تو حکومت کہیں جائے گی اور نہ ہی وزیراعظم ۔
حکومت جائے گی یا وزیراعظم؟—از–راوفیصل