مزید دیکھیں

مقبول

حافظ آباد:پنڈی بھٹیاں میں رمضان نگران پیکیج میں 500 روپے کی غیر قانونی کٹوتی کا انکشاف

حافظ آباد،باغی ٹی وی (خبرنگارشمائلہ) پنڈی بھٹیاں میں رمضان...

جرمنی میں ڈرائیور نے گاڑی ہجوم پر چڑھا دی، 1 شخص ہلاک

جرمنی کے شہر مانہائیم میں ایک کار ہجوم...

شادی کا جھانسہ ، پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ، 3 ملزمان گرفتار

اسلام آباد(باغی ٹی وی )اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایف...

ترقی کا دوسرا نام ،نواز شریف اور مسلم لیگ ن،تجزیہ:شہزاد قریشی

پرویز رشید جیسے کہنہ مشق سیاستدان مریم کی ٹیم...

آف لوڈ کیوں کیا، فیصل جاوید عدالت پہنچ گئے،توہین عدالت درخواست دائر

پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر...

وہ میٹھے لہجے میں گویا ہوا ہے

اسے پھر کام ہم سے آ پڑا ہے
وہ میٹھے لہجے میں گویا ہوا ہے

شگفتہ شفیق

8 اگست 1969: یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی معروف ادیبہ ، شاعرہ اور افسانہ نگار شگفتہ شفیق 8 اگست 1969 میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے حمد، نعت ، غزل اور نظم کی اصناف میں شاعری کی ہے جبکہ نثر میں انہوں نے کہانیاں اور افسانے بھی لکھے ہیں۔ وہ کچھ عرصہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئی تھیں مگر اللہ کے فضل سے تندرست ہو کر اس سے چھٹکارہ پا چکی ہیں۔ شفگتہ شفیق گلستان جوہر کراچی میں مستقل سکونت پذیر ہیں ان کی اب تک 5 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں۔
1 , میرا دل کہتا ہے
2 , یاد آتی ہے
3 , جاگتی آنکھوں کے خواب
4 , شگفتہ نامہ
5 , مری شاعری گنگنا کر تو دیکھو

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے تو گھر میں رہتے ہیں موسم کمال کے
اللہ کرے نہ آئیں کبھی دن زوال کے

اتنا بڑا کیا ہے اسی نے تو پال کے
آنے نہ دے جو پاس مرے دن ملال کے

اک یاد تیری ساتھ تھی اب وہ بھی ڈھل گئی
قصے پرانے ہو گئے میرے گلال کے

دل کو بہت سکون اسے دیکھ کے ملا
خوش باش ہیں وہ خوب مجھے بھول بھال کے

دنیا کی بات چھوڑیئے قصہ یہ گھر کا ہے
دن جا چکے ہیں لوٹ کے رنج و ملال کے

آنسو بہا کے باپ نے بیٹے سے یہ کہا
کیا مل گیا تجھے مری پگڑی اچھال کے

میں سوچتی ہوں کیسی شگفتہؔ یہ بات ہے
اب تو پہاڑ بن گیا غم پال پال کے

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر کوئی ہے سلسلہ الزام کا
یہ وطیرہ ہے مرے گلفام کا

روز کرتا ہے وہ روشن شام کو
اک دیا چھوٹا سا میرے نام کا

خوبصورت دل ربا سی شاعری
سلسلہ ہے روح تک الہام کا

چاہتوں کی بارشیں کرتا ہے وہ
خوب واقف ہے وہ اپنے کام کا

دل میں اپنے سوچتی ہوں میں کبھی
وقت آئے گا مرے آرام کا

وہ جنوں خیزی تو کب کی مٹ چکی
اب شگفتہؔ واسطہ ہے نام کا

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لگن زندگی کی جگانی پڑے گی
خوشی سب کی خاطر منانی پڑے گی

گھرانے کی عزت بچانی پڑے گی
ہنسی تو لبوں پر سجانی پڑے گی

ابھی مل گئے ہم کبھی یہ بھی ہوگا
کہ رسم جدائی نبھانی پڑے گی

تجھے کھو کے جینا بھی کیا زندگی ہے
مگر زندگی یوں بتانی پڑے گی

تیرا شیوہ چلتی ہواؤں سے لڑنا
ہر اک بات تجھ سے چھپانی پڑے گی

تیرے تیکھے تیور بتاتے ہیں مجھ کو
کہ ہستی تو اپنی مٹانی پڑے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلب عشق ساری مٹا دی ہم نے
اس کو روکا نہ صدا دی ہم نے

خواب لوگوں نے جلا ڈالے تھے راکھ راہوں میں اڑا دی ہم نے

اسے پھر کام ہم سے آ پڑا ہے
وہ میٹھے لہجے میں گویا ہوا ہے

آغا نیاز مگسی
آغا نیاز مگسیhttp://baaghitv.com
آغا نیاز مگسی ,ادیب، شاعر، کالم نویس، تجزیہ و تبصرہ نگار سابق صدر ,ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب نصیر آباد بلوچستان