بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں خواتین کی مشکلات اور تذلیل ، ایک افسوسناک منظرنامہ
تحریر: آمنہ خواجہ ملتان
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) حکومت پاکستان کی جانب سے کم آمدنی والے خاندانوں، خصوصاً خواتین کی مالی معاونت کے لیے ایک اہم فلاحی اقدام ہے۔ تاہم، اس عظیم مقصد کے باوجود، زمینی حقائق نہایت افسوسناک اور شرمناک ہیں۔ اوپر دی گئی تصویر میں جو منظر نظر آ رہا ہے، وہ صرف ایک تصویر نہیں بلکہ معاشرتی ناانصافی اور انتظامی ناکامی کی عکاسی ہے۔

تصویر میں درجنوں خواتین ایک مرکز کے باہر قطار میں کھڑی یا زمین پر بیٹھی نظر آتی ہیں، جن میں معمر خواتین، بیمار و کمزور خواتین اور نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔ ان کے چہروں پر پریشانی، تھکن اور بے بسی واضح دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ خواتین دھوپ اور گرمی کی شدت سے نڈھال ہوکر فرش پر بیٹھ گئی ہیں، جبکہ باقی اپنی باری کے انتظار میں کھڑی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو سرکاری امداد کی حقدار ہیں، مگر ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، وہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے باعث شرم ہے۔

▪️ مشکلات کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟
BISP کے تحت خواتین کو مالی امداد حاصل کرنے کے لیے اکثر گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ نہ کوئی مناسب بیٹھنے کی جگہ ہے، نہ سایہ، نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی ٹوکن یا نظام کا کوئی شفاف طریقہ۔
بعض اوقات خواتین کئی دن انتظار کے بعد بھی رقم حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں، کیونکہ یا تو رقم ختم ہو چکی ہوتی ہے یا سسٹم کام نہیں کرتا۔ عملے کا رویہ بھی اکثر تحقیر آمیز ہوتا ہے، جس سے خواتین کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔
ساتھ میں رشوت بھی کی جاتی ہے جو پیسے دے اسکے پیسے جلدی دیتے ہیں جو نا دے اسکے یا تو پیسے نہیں اے یا پھر بغیر ویرفکیشن کے بول دیتے کہ فنگر پرنٹ میچ نہیں ہوتےـ

▪️ عزت یا خیرات؟
یہ پروگرام خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا، مگر اس امداد کی وصولی کے لیے جن ذلت آمیز مراحل سے انہیں گزرنا پڑتا ہے، وہ اُن کی عزتِ نفس پر کاری ضرب ہے۔ بزرگ خواتین جو کہ شاید چل بھی نہ سکتی ہوں، ان کے لیے اس طرز کا انتظام مزید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اکثر جگہوں پر مردوں کی موجودگی میں خواتین کا گھنٹوں قطار میں لگنا اُن کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔

▪️ حل کیا ہو؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس پروگرام کے نظام کو بہتر بنائیں۔ خواتین کے لیے علیحدہ، باعزت اور آرام دہ مراکز قائم کیے جائیں۔ آن لائن یا موبائل ٹوکن سسٹم متعارف کروایا جائے تاکہ غیر ضروری ہجوم سے بچا جا سکے۔ خواتین کو قطاروں میں کھڑا ہونے کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگیوں یا ATM کارڈز کے ذریعے رقم فراہم کی جائے۔ عملے کی تربیت کی جائے تاکہ وہ مستحق خواتین کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اصل مقصد خواتین کو بااختیار بنانا اور غربت کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کرنا تھا۔ لیکن اگر یہ امداد تذلیل، تھکن اور پریشانی کی قیمت پر ملے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی ان خواتین کو "سپورٹ” کر رہے ہیں یا صرف اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا رہے ہیں؟ یہ وقت ہے کہ ہم صرف امداد نہ دیں بلکہ ان خواتین کی عزتِ نفس کا بھی تحفظ کریں۔

Shares: