سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا.تحریر: قرۃالعین خالد ،سیالکوٹ

2 دن قبل
تحریر کَردَہ

"سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا” کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے لیکن میں اسے مکمل طور پر درست نہیں مانتی۔ کسی برائی کو ختم کرنے کے لیے اس پر زیادہ ٹیکس لگا دینا اس کی روک تھام نہیں ہو سکتا ہاں کچھ وقت کے لیے کچھ لوگوں کی دسترس سے دور ہو سکتا ہے لیکن ایسا صرف کچھ وقت کے لیے ہو سکتا ہے۔ سگریٹ نوشی ایک بہت بری لت ہے دراصل ایک بہت بری عادت، بہت بری بیماری ہے جو ایک بار کسی کو لگ جائے تو اس کا بچنا مشکل ہے۔ یہ ایک ایسی دلدل کی طرح ہے جس میں انسان دھنستا ہی جاتا ہے ہاں ایک کام ضرور ہو سکتا ہے اگر انسان پختہ ارادہ کر لے تو کسی بھی مشکل یا دلدل سے باہر آ سکتا ہے۔ اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو اس کے علم کی بنا پر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ یاد رہے علم کی بنا پر اسے فرشتوں سے سجدہ کروایا تو اس کا مطلب ہے کہ علم ہی درجات کی بلندی کا باعث ہے۔ اللہ رب العزت قران پاک میں فرماتے ہیں:
"اللہ سے اس کے علم والے بندے ہی ڈرتے ہیں۔”(سورہ الفاطر:28)

علم ہی وہ بنیادی اکائی ہے جو انسان کے درجات کی بلندی کا باعث ہے۔ علم ہی وہ بنیادی اکائی ہے جو انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ علم ہی وہ بنیاد ہے جس سے انسان کے دل میں آگاہی اور شعور کا پودا لگتا ہے اور روز بروز علم کی بنیاد پر ہی اس کی آبیاری ہوتی ہے۔ علم ہی وہ بنیاد ہے جس کے باعث انسان رب کی معرفت حاصل کرتا ہے ذہن و دل میں رب کی محبت اور اس کے خوف کو بٹھاتا ہے اور پھر غلط کاموں سے رک جاتا ہے۔

حدیث کے مطابق ایمان، امید اور خوف کے بین بین ہے۔ جس دل میں ایمان ہوگا وہیں پر اللہ کا خوف بھی ہوگا اور انسان برائی کرتے ہوئے ڈرے گا بھی اور وہ رب کی ناراضگی سے گھبرائے گا بھی، جس دل میں ایمان ہوگا وہی دل رب سے امید بھی باندھے گا کہ اگر میں برائیوں سے رکوں گا تو رب کے انعام کا حقدار بنوں گا۔ فرمان نبوی کے مطابق: "ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے والدین ہیں جو اس کو یہودی مجوسی اور عیسائی بناتے ہیں۔” تو ثابت ہوا کہ کوئی بھی بچہ برائی کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا یہ والدین کی تربیت اور ماحول کا اثر ہوتا ہے کہ وہ برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔ سگرٹ نوشی بھی ان برائیوں میں سے ایک برائی ہے جو اچانک سے کسی انسان کی زندگی میں نہیں آتی۔ سگریٹ نوشی کے خاتمے سے پہلے آئیے جانیے کہ اس برائی کا اغاز کہاں سے ہوا تھا؟ کون تھا جس نے آج کی نوجوان نسل کو اس جگہ کھڑا کر دیا جہاں وہ اچھے برے کی تمیز بھول گیا۔ جہاں وہ حلال اور حرام کی پہچان بھول گیا۔ دیکھنے میں یہ تین انچ لمبی اور ایک چھوٹے بچے کی انگلی جتنی معمولی نظر آنے والی شے دراصل معمولی نہیں ہے 19ویں صدی کی اوائل میں امریکہ کے جیمز بکانن ڈیوک نے اس برائی کی بنیاد رکھی پہلے وہ سگرٹ کو ہاتھ سے بناتا رہا بعد ازاں اس نے مشین ایجاد کی جہاں وہ ہاتھ سے ایک دن میں 200 سگرٹ بناتا تھا اب وہاں وہ ایک دن میں ایک لاکھ بیس ہزار سگرٹ بنانے لگ گیا اور وہاں کے رہائشیوں کے لیے یہ تعداد بہت زیادہ تھی لہذا اس نے سگرٹ کو دنیا میں اشتہارات کے ذریعے اور بعض دفعہ مقابلہ حسن میں مفت بانٹنا شروع کر دیے اور اس طرح برائی اتنے سستے طریقے سے پھیل گئی کہ جس کا خمیازہ آج بھی نسلیں بھگت رہی ہیں۔

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ جس نے کسی برائی کی بنیاد رکھی یا آغاز کیا وہ گناہ گار ہے۔”
برائی کا آغاز کرتے وقت انسان یہ سوچتا نہیں کہ یہ برائی نسلوں تک جائے گی اور رہتی دنیا تک جو بھی اس میں ملوث ہوگا اس کی سزا ساری کی ساری ایجاد کرنے والے اور بنیاد رکھنے والے کو ملے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔”(سنن ترمزی1864) اسی طرح قران پاک میں شراب کی حرمت کو لے کر جو احکامات بیان کئے گئے ہیں ان کے مطابق شراب خریدنا، اس کا پینا، اس کا کاروبار کرنا سب حرام ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ حلال و حرام میں فرق کیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سگرٹ نوشی حرام کے زمرے میں نہیں آتی لیکن روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ جو بھی چیز نشے کے طور پر استعمال ہوتی ہے وہ چاہے سگریٹ ہو چاہے وہ اس سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز وہ سب حرام کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی پذیر جتنے بھی ممالک ہیں ان میں سگریٹ کی طلب میں ہر سال 3.4 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ انسانی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ایک ارب 30 کروڑ لوگ ہیں جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور ان میں سے 80 فی صد غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ پاکستان میں بھی تمباکو کی صنعت کا مجموعی حجم تقریبا ایک ارب روپیہ ہے اور اس میں مختلف اقسام منظر عام پر آتی ہیں جن میں کچھ نقلی ہیں کچھ اصلی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سگریٹ کو مہنگا کیا جاتا ہے تو اس کے بعد دو طرح کی کوالٹی سامنے آتی ہیں کیونکہ مہنگا سگریٹ غریب کی پہنچ سے دور ہوتا ہے تو وہ بہت ہلکی اور سستی کوالٹی کا سگریٹ استعمال کرتا ہے۔ ایسے سگریٹ بہت سستے داموں میں بکتے ہیں۔ حکومت اگر اس پر ٹیکس بھی لگائیں گے تو ہمارے پاس اتنی زیادہ ایسی کمپنیز اور اتنے زیادہ ایسے لوگ ہیں جو سگریٹ کی نقل بنانے میں ماہر ہیں تو ہر وہ چیز جس کی اصل پر ٹیکس لگے گا وہ ہر چھوٹے چھوٹے علاقوں کے اندر بننی شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حکومتی طور پہ تو سگریٹ پر ذیادہ ٹیکس لگے کی اپیل کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے لیول پر اپنے بچوں کو، اپنے سکولز میں، اپنے کالجز میں سگریٹ کے نقصان کے بارے میں آگاہی دیں۔ اسی طرح جو غریب طبقہ ہے اس کے لیے بھی آگاہی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔

حکومتی اداروں کے لیے میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اس سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”(صحیح بخاری) حکومت وقت بھی شریعت کے نظام و قانون سے دور، خوف الہٰی سے دور، دولت اور عہدوں کے نشے میں چور، روز محشر کو گئی بھول۔ یاد کیجیے! حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا تھا: "دریائے دجلہ و فرات کے کنارے کوئی پیاسا کتا بھی مر گیا تو پکڑ عمر کی ہو گی۔” کیسے تھے وہ لوگ؟ نہ عہدوں کی ہوس، نہ دولت کی لالچ، نہ زندگی کے حریص بس خدمت حلق تھا ان کا کام۔ دور حاضر میں حکومت وقت کو عہدوں کا جنون ہے۔ وہ یہ فراموش کر چکے کہ یہ عہدے نہیں ذمہ داریاں ہیں اور ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس لاپرواہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو کافی سمجھ لیا ہے یہ نہ سمجھا کہ ایک دن آئے گا جہاں سورج سوا نیزے پر ہو گا۔ جہاں ہر ایک کے اعمال کا حساب ہوگا۔ جہاں ماتحتوں اور رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ جہاں حکومت رب کعبہ کی ہو گی اور دنیا کا ہر طاقت ور بادشاہ ہر حکمران تھر تھر کانپ رہا ہو گا۔ وہاں سوال ہو گا کہ جوانی کہاں گزاری اور ماتحتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ وہاں سوال ہو گا تمہیں حکومت دی گئی تھی امت محمدیہ کا مستقبل تمہارے ہاتھوں میں تھا تم نے کیا کیا؟ اپنے تھوڑے سے عہدوں کے نشے میں چور نوجوانوں کے ہاتھوں میں نشہ تھما دیا۔ عوام حکومت کی ماتحت ہوتی ہے اس کی رعیت ہوتی ہے اس کے ایک ایک عمل کے بارے میں حکمرانوں سے پوچھا جائے گا۔ جہاں کہیں برائیوں کے اڈے ہیں، جہاں کہیں نوجوانوں کے ہاتھوں میں سگریٹوں کے دھوئیں ہیں سوال تو ہو گا۔ زندگی ایک نعمت ہے، رب کا عطیہ ہے، رب کا تحفہ ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ رب کی امانت ہے اور رب امانت میں خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا بالکل برداشت نہیں کرتا۔ بچہ دین فطرت پر پیدا ہوا تم نے اس سے کیا بنا دیا؟ میں تو کہتی ہوں سگریٹ پہ زیادہ ٹیکس کی بات چھوڑیں بلکہ اس کا مکمل خاتمہ ہی ہو جانا چاہیے۔ مسلمان نوجوان نسل اپنے ارادوں و عزائم میں بہت مضبوط ہے۔ ایک مسلمان کو اللہ نے دس کافروں پر فوقیت دی ہے۔
اس کا وقار ایسا تو نہیں جو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑ جائے۔
اس کا کردار ایسا تو نہیں کہ سگریٹ کی چنگاری کی طرح پاؤں تلے مسلا جائے۔
اس کی گفتار ایسی تو نہیں جو ہوا میں لہرا جائے۔
اس کے افکار ایسے تو نہیں جو ایک تین انچ کے ٹکڑے کے محتاج ہوں۔

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ شریعت کے قانون کی پاسداری کے لیے قربانیاں دی گئی تھیں۔ آج عہدوں کے نشے میں چور حکمرانوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ روز محشر جب رعیت کے بارے میں سوال ہوگا تو کیا جواب دیں گے؟ افسوس صد افسوس! اپنے چند ٹکوں کے لیے امت مسلمہ کو سگرٹ کے دھوئیں کے حوالے کر دیا. برائیاں تبھی جنم لیتی ہیں جب انسان کا دل خوف الہٰی سے خالی ہو جاتا ہے۔ جب اس کا یقین روز محشر کے بارے میں ڈگمگا جاتا ہے۔
"ہمارے لیے ہمارے اعمال تمہارے لیے تمہارے اعمال۔”(سورہ البقرہ:139) حکمرانوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ انسان کو اللہ نے عقل و شعور سے نوازا ہے انہیں خود بھی چاہیے کہ وہ برے اعمال سے دور رہیں۔ صاحب علم و فہم سے گزارش ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ہمیں بھی اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
تو آئیے! بارش کا وہ پہلا قطرہ بن جائے جو ہمت کرتا ہے اور اپنے پیچھے ڈھیروں بوندا باندی کو لے کر آتا ہے۔
آئیے! ہاتھ بڑھائیے اٹھیے اور نفع مند مومن بن جائیں جو معاشرے کو اندھیروں سے نکال کر خیر و بھلائی کے نور سے آگاہی دیتا ہے۔
آئیے! سگرٹ نوشی کی روک تھام کے لیے آگاہی پروگرام کا انعقاد کریں اور کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی اپنی آواز پہنچائیں۔ اس کے نقصانات بتائیں اور حلال و حرام کے فرق کو واضح کریں۔
تو کون بنے گا؟
انصار اللہ!

Latest from بلاگ