شانِ پاکستان
از قلم: بسمہ مجید (بوریوالہ)
وہ مٹی جو سجدوں کی خوشبو رکھتی ہے، وہ زمین جس پر شہیدوں کا خون مہکتا ہے، وہ پرچم جو امیدوں کا استعارہ ہے۔وہی تو ہے، میری پہچان، میرا مان، میری شان… پاکستان!
جب کبھی تاریخ انسانیت قربانی، عظمت اور حریت کی مثال مانگتی ہے، تب پاکستان کا نام سنہری حروف میں ابھرتا ہے۔ یہ ملک فقط سرحدوں کا نام نہیں، یہ ایک نظریے کی فتح، ایک قوم کی آرزو، اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے۔ پاکستان کی شان، اس کے سبز ہلالی پرچم میں نہیں۔ اس پرچم کو تھامے رکھنے والے ہاتھوں میں ہے، ان خوابوں میں ہے جو ایک آزاد ریاست کے تصور سے شروع ہوئے اور آج ایک زندہ حقیقت بن کر ہر پاکستانی کی آنکھ میں جگمگاتے ہیں۔پاکستان کوئی حادثہ نہیں تھا، یہ ایک شعوری فیصلہ، ایک نظریاتی مطالبہ تھا۔ علامہ اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں جس خواب کو جگایا، وہ صرف ایک جغرافیہ نہ تھا، بلکہ ایک ایسا وطن تھا جہاں مسلمان اپنی تہذیب، دین اور شناخت کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے فرمایا تھا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

یہی وہ شعور تھا جس نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کے طور پر اپنی ریاست کے لیے کھڑا کیا۔قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس خواب کو حقیقت میں بدلا۔ جب 23 مارچ 1940 کو قراردادِ لاہور پیش کی گئی، تو اس وقت قائد نے واضح کیا کہ: "ہندوستان کے مسلمان نہ ہندو ہیں، نہ ان کے رسم و رواج، نہ تہذیب و تمدن ایک جیسے ہیں، ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔” یہی جملہ پاکستان کی شان کا آغاز تھا ۔ ایک ایسی ریاست کا تصور جہاں اقلیتیں محفوظ ہوں، قانون کی حکمرانی ہو، اور اسلام کے سنہری اصول روشنی بن کر ہر شہری کے لیے راہ متعین کریں۔

مگر یہ خواب آسانی سے حاصل نہ ہوا۔ لاکھوں جانیں، ہزاروں عصمتیں، اجڑے گھر، بچھڑے خاندان ،سب اس سفر کے ہمسفر بنے۔ مہاجرین کی کٹی پھٹی ٹرینیں، ماؤں کی سسکیاں، بچوں کی چیخیں، سب کچھ اس سرزمین کی قیمت تھی۔ مگر اس سب کے باوجود لبوں پر ایک ہی نعرہ تھا: "پاکستان زندہ باد!” اور یہی وہ لمحہ تھا جہاں اس قوم نے قربانی کو اپنا زیور اور وطن کو اپنا دین سمجھا۔

پاکستان کی شان صرف ماضی کے ان لمحات میں نہیں، بلکہ اس کی تہذیب، ثقافت اور زبانوں کے تنوع میں بھی چھپی ہے۔ پنجابی کی محبت، سندھی کی سادگی، بلوچی کا غرور، پشتو کا غیرت مند لہجہ، سرائیکی کی مٹھاس، سب اس دھرتی کی خوبصورتی ہیں۔ اردو زبان کی شیرینی وہ رشتہ ہے جو اس کثیر الثقافتی قوم کو ایک لڑی میں پروئے رکھتی ہے۔ اقبالؒ، فیضؔ، قاسمیؔ، بانو قدسیہ، اشفاق احمد ، ان سب کے قلم پاکستان کی فکری شناخت ہیں۔

اسی طرح پاکستان کی عسکری قوت بھی اس کی شان کی ایک لازوال علامت ہے۔ 1965 کی جنگ میں جب قوم کے سپوتوں نے دشمن کے ٹینکوں کے آگے سینہ تان لیا تو دنیا نے دیکھا کہ یہ قوم نہ صرف زندہ ہے بلکہ غیرت کے ہر معیار پر پوری اترتی ہے۔ میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس، کیپٹن کرنل شیر خان جیسے جوانوں کی قربانیاں تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا: "ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے، وہی ہماری اصل پہچان اور شان ہیں۔”

پاکستان نے نہ صرف عسکری میدان میں، بلکہ علم، سائنس اور تحقیق میں بھی اپنی شان منوائی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا کر دشمن کی میلی آنکھوں کو مایوسی دی۔ ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ ملالہ یوسفزئی نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان کی بیٹیاں بھی علم کی روشنی سے اندھیروں کو چیر سکتی ہیں۔

پاکستان کی معیشت، زراعت، صنعت، کھیل اور ثقافت ، سب ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ کرکٹ کا میدان ہو یا آئی ٹی کی دنیا، ادب ہو یا فلم، پاکستان کی نوجوان نسل دنیا کے ہر شعبے میں اپنا مقام بنا رہی ہے۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو پاکستان کا اصل سرمایہ ہیں۔
اقبالؒ نے انہی کے لیے کہا تھا:

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

شانِ پاکستان دراصل ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔ ایسی جدوجہد جو محبت سے شروع ہو، محنت سے پروان چڑھے، اور قربانی سے پائندہ رہے۔ جب ایک استاد ایمانداری سے پڑھاتا ہے، جب ایک طالب علم دل سے سیکھتا ہے، جب ایک کسان سچائی سے کھیت جوتتا ہے، اور جب ایک سپاہی جان کی پرواہ کیے بغیر وطن کی حفاظت کرتا ہے۔ تو یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب پاکستان کی شان پروان چڑھتی ہے۔یہ شان ہمارے بزرگوں کی دعاؤں میں ہے، ہماری ماؤں کے آنچل میں ہے، ہمارے بچوں کی آنکھوں کی چمک میں ہے۔ یہ شان کسی ایک دن، ایک ایوارڈ، یا ایک تقریر کی محتاج نہیں۔

یہ ایک زندہ قوم کا مسلسل سفر ہے، جو ہر دن اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ہم پاکستان کے لیے ہیں، اور پاکستان ہم سے ہے۔ یہ رشتہ مٹی سے نہیں، محبت سے جڑا ہے۔ یہ شان ہمیں وراثت میں نہیں ملی ۔ یہ ہمیں سنبھالنی ہے، نبھانی ہے، اور آنے والی نسلوں تک فخر سے منتقل کرنی ہے۔

پاکستان! تو نہ صرف میرا وطن ہے، تو میری پہچان ہے، میرا مان ہے… اور ہاں، تو ہی میری شان ہے۔

Shares: