شانِ پاکستان
تحریر:دانیال حسن چغتائی
ہر خطہ، ہر بستی، ہر چپہ زمین کی کوئی نہ کوئی شناخت ہوا کرتی ہے لیکن اسی کائنات پر ایک ملک ایسا بھی ہے جس کی پہچان اس کی جغرافیائی حدود، قدرتی وسائل نہیں بلکہ اس کی شان اس کا نظریہ، قربانیوں سے لبریز تاریخ اور اس کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے والے غیرت مند لوگ ہیں ۔
جب 14 اگست 1947 کی روشن صبح طلوع ہوئی تو ایک صدی کی غلامی کے بعد صبح نو تھی۔ یہ نئی امید، نئی پہچان کی صبح تھی۔ لاکھوں قربانیوں، ہزاروں ماؤں کی لٹتی چوٹیاں، لٹے ہوئے قافلے، سسکتی ہوئی مائیں، کٹے پھٹے جنازے اور ان سب کے باوجود ایک ہی للکار، صدا تھی۔
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ!
یہ نعرہ امتِ مسلمہ کے شعور کا اعلان تھا۔

قائداعظم محمد علی جناح نے جب فرمایا،
ہم علیحدہ قوم ہیں، ہماری تہذیب، تمدن، مذہب، معیشت سب جدا ہے تو گلیوں، بستیوں اور قریوں میں رہنے والے مسلمانوں میں نئی روح دوڑ گئی۔ یہی وہ روح ہے جو آج تک شانِ پاکستان کی بنیاد ہے۔
اگر اقبال کے خواب، قائد کے عزم، لیاقت علی خان کی قربانی، فاطمہ جناح کی جدوجہد اور ہزاروں نوجوانوں کی شہادتوں کو ایک لڑی میں پرویا جائے تو جو تسبیح بنے گی، وہی شانِ پاکستان ہے۔

آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے، عالمِ اسلام کا قلعہ ہے، نوجوانوں کا خواب ہے، شہیدوں کی امانت ہے۔کبھی سیاچن کے برفیلے محاذوں پر جوان بے سرو سامانی میں دشمن کو روک لیتے ہیں تو کبھی وزیرستان کی وادیوں میں دہشت گردی کا قلع قمع کرتے ہیں۔ بنیان المرصوص تو ابھی کل کی ہی بات ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

یہ دیدہ ور ہم نے ارفع کریم کی صورت، ڈاکٹر عبد القدیر کی تحقیق میں، ملالہ یوسفزئی کی استقامت میں، ایدھی کی خدمت میں، اور نیلم کے سپاہی کی شہادت میں دیکھے ہیں۔ اگر آج کوئی نوجوان ہاتھ میں قلم تھامے کسی پہاڑی بستی میں بیٹھا تعلیم حاصل کر رہا ہے تو وہ بھی شانِ پاکستان ہے۔
اگر کوئی خاتون ٹیچر حجاب میں بچیوں کو سائنس پڑھا رہی ہے تو وہ بھی شانِ پاکستان ہے۔اگر فوجی سپاہی مورچے میں بیٹھ کر دشمن کو للکار رہا ہے تو وہ بھی شانِ پاکستان ہے۔

یوں تو دنیا کے نقشے پر بےشمار ممالک ابھرتے اور ڈوبتے رہے، کوئی سلطنتِ مغلیہ کہلائی تو کوئی سلطنتِ عثمانیہ، کہیں تاج برطانیہ چھایا تو کہیں فرعونوں کی دھاک بیٹھی مگر خاکِ پاکستان کچھ اور ہے، اس کی بنیادوں میں خوابوں کی چنگاریاں بھی ہیں اور شہادتوں کے پھول بھی ہیں ۔ اس کی صبحیں اذانوں سے روشن اور شامیں سجدوں سے معطر ہوتی ہیں۔ پاکستان نظریے، عقیدے اور عظیم جدوجہد کا روشن نتیجہ ہے۔اور کیا ذکر کروں اُس لازوال محبت کا، جو اس سرزمین کے ذرے ذرے سے ہو جاتی ہے؟ کیا یہ کم فخر کی بات ہے کہ اسی خاک سے اقبال نے خواب دیکھے اور قائد نے تعبیر کی! ایک طرف لہو کا دریا، دوسری جانب منزل کا صحرا، پھر بھی ہنستے ہنستے قربان ہونے والوں کی وہ داستانیں، جنہیں اگر سنیں تو آنکھیں چھلک پڑیں، اور دل کہتا ہے یہی تو شانِ پاکستان ہے۔

اردو۔ وہ زبان جو گلزارِ تہذیب بھی ہے اور آئینۂ شعور بھی۔ پاکستان نے اردو کو وہ مقام عطا کیا جو دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملا۔ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ یہ زبان بھی تو پاکستان کی شان ہے۔

اگر فنونِ لطیفہ کی بات کی جائے تو پھر دھنک رنگ پاکستان پیشِ نظر آتا ہے۔ لاہور کی انار کلی سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک، خیبر کے پہاڑوں سے لے کر کشمیر کی وادیوں تک، ہر گوشہ ثقافت، ہر سنگِ در، ہر ساز کی لے میں الگ جمال اور اک نئی شان چھپی ہوئی ہے۔ ہنر مندوں کی سرزمین، لوک داستانوں، قوالی، غزل، فوک میوزک، اور کلاسیکی رقص و موسیقی کی وہ ریت، جو دلوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ یہ سب پاکستان کی پرچھائیں ہیں، یہ سب اس کی شان کے استعارے ہیں۔

معاشرتی اقدار، خاندانی نظام، مہمان نوازی، بزرگوں کا احترام، خوشبو سے معطر باورچی خانے پاکستان کی روایتی زندگی میں وہ حسن ہے کہ جو کبھی پرانا نہیں پڑتا۔ یہاں بچپن دادی نانی کی کہانیوں سے مالا مال ہوتا ہے، جوانی غیرت و مروت کی عکاس اور بڑھاپا عزت و احترام کا پیکر بن کر سامنے آتا ہے۔

ہماری افواج کی قربانیاں، ان کا عزم، ان کی جرات سب کچھ ایسی عظمتوں کا پتہ دیتی ہیں جو لفظوں میں سموئی نہیں جا سکتیں۔ یہی وہ فولادی سپاہی ہیں جو پاکستان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ شانِ پاکستان کے ماتھے کا جھومر یہی سپاہی ہیں۔

پاکستان کی شان اس کے نوجوانوں میں پنہاں ہے۔ وہ نوجوان جو سائنس، ٹیکنالوجی، ادب، کھیل، فنون اور دفاعی میدانوں میں دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ کبھی ملالہ کے نام سے دنیا جھوم اٹھتی ہے تو کبھی ارفع کریم کی خدمات کا پوری دنیا اعتراف کرتی ہے۔

یقیناً ہمارے دامن میں مسائل بھی ہیں۔ جن میں غربت، ناانصافی، کرپشن، دہشت گردی شامل ہیں لیکن وہ قوم، جس نے تہتر برس قبل ایک خواب کی تعبیر الگ وطن کی صورت میں حاصل کیذ! آج ان کٹھنائیوں سے نہ نکل پائے گی؟ ہرگز نہیں! کیونکہ جب تک دلوں میں پاکستان کے لیے تڑپ موجود ہے، جب تک آنکھوں میں اس کے لیے روشنی باقی ہے، جب تک ہاتھ اس کے لیے دعاؤں میں اٹھتے رہیں گے تب تک شانِ پاکستان سلامت رہے گی ان شاءاللہ ۔

وطن کی شان نعرے لگانے سے نہیں بڑھتی بلکہ اس کے لیے عمل، قربانی، دیانت اور اتحاد درکار ہوتا ہے۔ دلوں کو جوڑیں، زبانوں کو نرم کریں، اختلاف کو رحم میں بدلیں، وطن کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تب ہی ہم حقیقی معنوں میں شانِ پاکستان میں کردار ادا کر سکیں گے۔
یہ ملک ہماری پہچان ہے، ہمارا مان ہے، ہماری روح ہے۔ اس کے کھیت ہمارے رزق کا وسیلہ، اس کی ہوائیں ہمارے خوابوں کا سفر اور اس کے شہید ہماری آزادی کی مہر ہیں۔
پاکستان زندہ باد!
پاکستان پائندہ باد!

Shares: