شانِ پاکستان
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
ہر قوم کی پہچان اس کے کردار، ورثے اور کارناموں سے ہوتی ہے اور اگر کوئی ملک واقعی قابلِ فخر ہو سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے، وہ پاک سرزمین جو نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ عسکری، سائنسی، سماجی اور معاشرتی طاقتوں کی عظیم علامت بھی ہے۔ آج جب ہم اپنے وطنِ عزیز کو عالمی افق پر دیکھتے ہیں تو اس کی ہر جہت ایک نئی عظمت کی کہانی سناتی ہے۔ یہی توہے شانِ پاکستان۔
حال ہی میں جب ہمارے ازلی دشمن ہمسایہ ملک بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی فضاؤں میں دراندازی کی جسارت کی، تو پاک فوج و پاک فضائیہ نے وہ تاریخ رقم کی جو دنیا نے حیرت سے دیکھی۔ پاکستان نے بھارت کے چھ جنگی جہاز مار گرائے جو اس کی عسکری برتری، نظم و ضبط اور جوابی حکمتِ عملی کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ دشمن کو دندان شکن اور عبرت ناک شکست دینا صرف ہتھیار کی طاقت نہیں بلکہ عزم، پیشہ ورانہ مہارت اور قومی یکجہتی کا نتیجہ ہے۔اسے کہتے ہیں شانِ پاکستان۔
پاکستان اپنی ہزاروں سال قدیم تہذیبوں اور مذہبی رواداری کی وجہ سے عالمی سطح پر نمایاں ہے۔ یہ سرزمین دنیا کی چند قدیم ترین تہذیبوں، جیسے کہ ہڑپہ اور موہنجو دڑو، کی گہوارہ رہی ہے، جو اپنی شہری منصوبہ بندی اور ترقی یافتہ طرز زندگی کے لیے مشہور تھیں۔ بہاولپور کے قریب واقع گنویری والا کی دریافت جو ممکنہ طور پر 6000 سے 7000 سال قدیم ہے، پاکستان کی تاریخی عظمت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ یہ آثار قدیمہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ خطہ ہزاروں سالوں سے انسانی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شانِ پاکستان کیا ہے
پاکستان اپنے تنوع اور اقلیتی برادریوں کے مذہبی مقامات کے احترام کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں سکھ، ہندو اور عیسائی سمیت دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ اور خوف کے بغیر زندگی گزارتے ہیں۔ سکھوں کے لیے پاکستان ایک انتہائی اہم مذہبی مرکز ہے، کیونکہ یہاں ان کے کئی مقدس گوردوارے موجود ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں بابا گرونانک کی جنم بھومی ننکانہ صاحب ہے، جو سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیوجی کا جائے پیدائش ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سکھ یاتری یہاں آتے ہیں اور اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں۔
اسی طرح کرتار پور صاحب کا گوردوارہ بھی سکھ برادری کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے، جہاں بابا گرو نانک دیوجی نے اپنی زندگی کا آخری حصہ گزارا۔ یہ مقامات نہ صرف سکھ مذہب کی تاریخ اور روایات کا حصہ ہیں بلکہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال بھی ہیں۔ پاکستان میں ہندوؤں کے بھی کئی قدیم اور مقدس مندر موجود ہیں، جن میں چکوال کے قریب واقع کٹاس راج مندر خاص مقام رکھتا ہے۔ عیسائی برادری بھی یہاں اپنی عبادات کے لیے گرجا گھروں میں جاتی ہے اور اپنے مذہبی تہوار آزادی سے مناتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
پاکستان کی زمینی خوبصورتی اس کی سب سے نمایاں شناخت ہے۔ شمال میں بل کھاتی وادیاں، بہتے چشمے، برف سے ڈھکی چوٹیوں سے لے کر جنوب میں خلیجِ عرب سے جڑے نیلے پانیوں والے ساحل، سب قدرت کی عطاء ہیں۔ سوات، کالام، گلگت، ہنزہ، ناران، کاغان اور نیلم وادی جیسی حسین وادیوں کو اگر جنتِ ارضی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ مناظر نہ صرف سیاحوں کو لبھاتے ہیں بلکہ قومی معیشت میں اہم کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
روہی، چولستان، تھر اور تھل کے صحرا اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں انسان نے سخت حالات کے باوجود زندگی کا رنگ بکھیر رکھا ہے۔ اونٹوں کے قافلے، روایتی ثقافت، صحرا میں گونجتی لوک موسیقی اور رنگ برنگے تہوار، یہ سب کچھ پاکستان کی تنوع سے بھرپور تہذیب کا مظہر ہے۔ ان خشک ریگزاروں میں بھی ایک دھڑکتا ہوا پاکستان آباد ہے۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
بلوچستان ویسے تو بہت ہی خوبصورت لیکن ضلع خضدار اپنے قدرتی چشموں، پہاڑی سلسلوں اور مٹی کے آتش فشاں جیسی نایاب قدرتی ساختوں کی وجہ سے منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں کی زمین معدنیات سے مالا مال ہے اور یہ قدرتی وسائل پاکستان کی اقتصادی ترقی کی کلید ہیں۔ ساتھ ہی یہ خطہ ایک جغرافیائی پل کا کردار ادا کرتا ہے جو وسطی ایشیا اور خلیجی ریاستوں سے پاکستان کو جوڑتا ہے۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
پاکستان کا ساحلی علاقہ بالخصوص گوادر بندرگاہ، آنے والے وقت میں عالمی تجارتی مرکز بننے جا رہا ہے۔ یہ بندرگاہ نہ صرف چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے گیٹ وے ہے بلکہ یہ پاکستان کی معاشی خودمختاری کی علامت بن چکی ہے۔ گوادر سے جڑی سی پیک (CPEC) نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے معاشی ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہی تو ہے شانِ پاکستان۔
شہرِ کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان، حیدرآباد، سکھر اور سیالکوٹ جیسے تجارتی مراکز پاکستان کی معیشت کو زندگی بخشتے ہیں۔ سیالکوٹ جو کہ پاکستان کا صنعتی دل ہے، دنیا بھر میں اسپورٹس گُڈز، سرجیکل آلات، لیدر مصنوعات اور برآمدات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی وہ شہر ہے جس کی متحرک بزنس کمیونٹی نے اپنے وسائل سے نہ صرف ملک کا پہلا نجی بین الاقوامی ایئرپورٹ تعمیر کیا بلکہ "ائیر سیال” کے نام سے اپنی ایئرلائن بھی قائم کی ، یہ اس شہر کے ترقی پسند جذبے اور قومی خدمت کے عزم کی زندہ مثال ہے۔ ان شہروں کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، جدید شاپنگ مالز، صنعتی زونز، فری ٹریڈ ایریاز اور فنانشل حب کے طور پر ابھرتے ڈھانچے دنیا کو ایک نیا، ترقی یافتہ پاکستان دکھا رہے ہیں۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
اور اگر پاکستان کا مرکز اور دل کہیں تو وہ ہے ڈیرہ غازیخان، جو جغرافیائی لحاظ سے چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس علاقے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ایشیا کا دوسرا بڑا اسٹیل پل تعمیر کیا گیا جو کوہِ سلیمان کے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان بلوچستان کی آمد و رفت کو آسان بناتا ہے۔ یہی نہیں جنوبی پنجاب کا خوبصورت سیاحتی مقام فورٹ منرو جسے "جنوبی پنجاب کا مری” بھی کہا جاتا ہے ، ڈیرہ غازیخان ہی میں واقع ہے، جو نہ صرف مقامی سیاحت کو فروغ دے رہا ہے بلکہ علاقے کی اقتصادی و ثقافتی اہمیت کو بھی اجاگر کر رہا ہے۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
تعلیم کے میدان میں پاکستان میں اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیاں، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز، زرعی و ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس نئی نسل کو نہ صرف تعلیم دے رہے ہیں بلکہ انہیں عالمی معیار کا ہنرمند بھی بنا رہے ہیں۔ نمل، نسٹ، کامسیٹس، آئی بی اے، لمز، گورنمنٹ کالج، پنجاب یونیورسٹی اور دیگر ادارے ملک کے تعلیمی افق پر درخشاں ستارے ہیں۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
پاکستانی نوجوان ہنرمند، پرجوش اور قابلیت میں کسی سے کم نہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو آئی ٹی، ای کامرس، فری لانسنگ، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ، فیشن، فلم، فنون لطیفہ اور کھیلوں کے میدان میں دنیا میں پاکستان کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ ہماری ہنر مند افرادی قوت نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دے رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان قائم کر چکی ہے۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
پاکستان کا زرعی شعبہ، سرسبز کھیت، بہترین نہری نظام، چاول، گندم، کپاس، آم، مالٹے، گنا، اور سبزیاں، یہ سب پاکستان کی زرعی طاقت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پنجاب کے لہلہاتے کھیت، سندھ کی زرخیز زمین، خیبرپختونخوا کے پہاڑی باغات اور بلوچستان کی پھلوں سے بھری وادیاں ہمارے دیہی نظام کا حسن ہیں۔ یہی تو شانِ پاکستان ہے۔
پاکستان بلند و بالا پہاڑوں کی سرزمین ہے، جہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 واقع ہے۔ کے ٹو صرف ایک پہاڑ نہیں، یہ ہمت، حوصلے اور عزم کا نشان ہے۔ یہاں آنے والے کوہ پیما پاکستان کی قدرتی خوبصورتی اور خطرناک مگر دلکش چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں اور پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی انفرادیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہی بھی شانِ پاکستان ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی پاکستان نے دنیا کو حیران کیا۔محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز ان تھک محنت اور تحقیق نیز اس وقت کی جہاندیدہ قیادت اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے بروقت اور جرات مندانہ فیصلے کی بدولت پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بنا۔28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے دنیا کو باور کرا دیا کہ ہم اپنی خودمختاری، سالمیت اور قومی وقار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نہ صرف ملکی دفاع کی ضامن ہے بلکہ عالمِ اسلام کی اجتماعی طاقت کی علامت بھی ہے۔یہی تو ہے شانِ پاکستان۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر محب وطن سائنسدانوں نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچایا کہ آج دنیا ہماری صلاحیتوں کا لوہا مانتی ہے۔
"ٹی از فنٹاسٹک” سے شروع ہونے والی دشمن کی شیخی رافیل طیاروں کی تباہی پر ختم ہوئی ، پاکستان نے دشمن کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور اللہ رب العزت کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا، شکرانے کیلئے کسی اور کیلئے نہیں فقط اپنے رب کی خوشنودی کیلئے اس کے آگے سجدہ ریز ہونا بھی تو شانِ پاکستان ہے .
پاکستان نہ صرف جغرافیائی حسن، عسکری طاقت، زرعی ترقی اور اقتصادی مواقع کا نام ہے بلکہ یہ ایک نظریہ، ایک تہذیب، ایک ثقافت اور ایک جذبے کا نام ہے۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز، محبت کرنے والے، جفاکش اور ایماندار ہیں۔ پاکستانی قوم آزمائشوں سے گھبراتی نہیں بلکہ ان کا سامنا کرتی ہے اور ہر بار سرخرو ہوتی ہے۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
ہماری افواج، ہمارے ادارے، ہمارے سائنس دان، کسان، مزدور، ڈاکٹر، انجینئر، طالبعلم، فنکار اور کھلاڑی اور ہمارے محب وطن قلمکار وصحافی سب مل کر ایک ایسا پاکستان بناتے ہیں جو نہ صرف قابلِ فخر ہے بلکہ دنیا کے لیے مثال بھی ہے۔کیونکہ یہی ہے ہمان آن بان اور شانِ پاکستان۔
پاکستانی قوم اور پاک فوج زندہ باد ،پاکستان پائندہ باد.








