شانِ پاکستان
تحریر:کشور آپی
"مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی”
دل موہ لینے والی آواز ریشماں.. کیا کہنے ہیں اس کے۔ درد بھرا ہوا ہے اس کی آواز میں۔ جو کلام بھی پڑھتی ہے، اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ لہجہ سادہ، سچا، ایسا لگتا ہے جیسے اس کا کلام کہیں دیہات میں بیٹھ کر سن رہے ہوں۔
عامر کو تو جیسے ریشماں کے کلام کی عادت ہوگئی تھی۔ صبح سویرے اٹھنا، نماز پڑھنا، واک پر جانا اور ساتھ میں موبائل پر ریشماں کے گیت بلیوٹوتھ کے ذریعے سننا۔ یونیورسٹی میں بھی چپ چاپ رہنا۔
"کیا مسئلہ ہے یار؟” اکثر میں پوچھتا، اور وہ چپ کر جاتا۔ ایک دن وہ پھٹ پڑا۔ کہنے لگا:
"زاہد! تمہارے گھر میں کون کون ہیں؟”
میں نے کہاکہ "تم نے یہ کیا سوال کر دیا؟ کون کون ہیں؟ ظاہر ہے بھئی ابو، امی، بہن، بھائی، اور کون ہوتا؟ میری شادی ہو جاتی تو تمہاری بھابھی بھی ہوتی، مگر ابھی تو میں سنگل ہوں۔”
عامر بولا: "زاہد! میرے گھر میں میری امی نہیں ہیں۔ وہ فوت ہوگئی ہیں۔”
زاہد بولا: "بھائی، معاف کر دو، مجھے پتہ نہیں تھا۔ تمہاری امی کب فوت ہوئیں؟”
عامر نے افسردہ ہو کر کہاکہ "میں تقریباً دو سال کا تھا جب میری امی کا انتقال ہو گیا تھا۔ تم جب یونیورسٹی جاتے ہو تو تمہاری امی تمہیں ناشتے کے لیے آوازیں دے رہی ہوتی ہیں۔ تب مجھے اپنی امی بہت یاد آتی ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتیں تو مجھے بھی اسی طرح آوازیں دیتیں۔” عامر بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔
زاہد کو اب سمجھ آئی کہ آخر عامر کیوں ریشماں کا یہ گیت بار بار سنتا ہے۔
زاہد نے عامر سے پوچھا کہ کیا اس کے ابو نے دوسری شادی نہیں کی؟
وہ بولا: "کی ہے یار، بھلا کون اتنے عرصے تک اکیلا رہ سکتا ہے۔ میری دوسری امی ہیں مگر ان کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں ہے۔ سارا دن مجھ سے گھر کے کام کرواتی رہتی ہیں، ابو سے شکایتیں لگاتی ہیں کہ میں ان سے صحیح طرح سے بات نہیں کرتا، ان کا کہنا نہیں مانتا اور یہیں پر بس نہیں کرتیں، مجھے ابو سے پٹواتی ہیں۔”
زاہد بولا: "یار دنیا میں غم بھرے پڑے ہیں۔ کسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے، کسی کے پاس چھت نہیں ہے، کسی کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ یہی تمہاری سوتیلی ماں کا حال ہے۔ وہ بیوہ ہو کر آئی ہے مگر اسے تمہاری قدر نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں تم ایک نیک لڑکے ہو۔ دنیا میں ایک سے ایک عیاش، بدتمیز انسان ہے، مگر تم پانچ وقت کے نمازی اور اپنی پڑھائی کرنے والے انسان ہو۔ کیسے وہ یہ سب کر لیتی ہے؟ کیا اس کا ضمیر مر گیا ہے؟ وہ ایک بن ماں کے بچے کے ساتھ یہ ظلم کر رہی ہے۔ خدا اسے ہدایت دے اور اس کے دل میں تمہارے لیے رحم ڈالے۔”
عامر ایک دن زاہد سے ملنے آیا تو عامر کی امی (سوتیلی) نے پردے کی اوٹ سے کہہ دیا کہ "بیٹا وہ نہیں ہے، گھر کا سودا لینے گیا ہے، آ جائے گا تو بتا دوں گی۔” عامر اس دن پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ اگر میری ماں ہوتی تو وہ بھی مجھے "بیٹا” کہتی۔
زاہد عامر کے گھر گیا۔ جیسے ہی بیل بجائی، عامر نکل کے باہر آ گیا۔ عامر کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔ زاہد نے پوچھا تو بتایا کہ "آنکھ میں کچھ گر گیا تھا۔”
عید آئی تو عامر عید پڑھنے کے بعد گھر آیا اور سویاں کھا کر سو گیا۔ اسی گلی میں اس کے ماموں رہتے تھے۔ عامر کی والدہ کے فوت ہو جانے کے بعد وہ کبھی ان کے گھر نہیں آئے تھے۔ جب عامر کا دل کرتا تو وہ اپنے ماموں کے گھر چلا جاتا، ماموں کے بچوں سے کھیل کر واپس آ جاتا۔ اس کی ممانی بہت اچھی تھیں۔ وہ عامر کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتیں، کھانا کھلاتیں اور پیسے دیتیں تاکہ وہ اپنی من پسند چیز کھا لے۔
عامر کے ابو کا کلینک تھا اور وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ وہ جو بھی جیب خرچ عامر کو دینے کے لیے اپنی بیوی کو دیتے، وہ اپنے پاس رکھ لیتی اور عامر کو کچھ نہ دیتی۔
زاہد اس کے گھر کے حالات سن سن کر پریشان ہوتا، مگر صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔
زاہد، عامر اور یونیورسٹی کے لڑکوں نے ٹرپ پر جانے کا فیصلہ کیا تو عامر نے کہاکہ "یار میں تو پڑھائی کرنا چاہتا ہوں، تم لوگ ہو آؤ۔ فی الحال میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔” زاہد کو پتہ تھا کہ آخر یہ کیوں جانے سے انکار کر رہا ہے۔ زاہد نے عامر کے ابو سے اجازت لی اور عامر کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
سوات جا کر عامر بہت خوش ہوا کیونکہ وہ جب چھوٹا تھا تو اس کے ابو اسے پارک یا جھیل پر لے جاتے تھے، لیکن اب تو سب اسے خواب لگنے لگا تھا۔
سوات میں اس نے خوب مزے کیے۔ جھیل، آبشاریں، جھرنے اور مخملیں فرش جیسے راستے اور موسم خوشگوار ، کبھی ہلکی ہلکی بوندا باندی اور کبھی بارش۔ ہوٹل سیاحوں سے بھرے پڑے تھے۔ گرمی سے بلکتے انسان خوشگوار موسم کی تلاش میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور کچھ دن گزارنے کے بعد اپنے اپنے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور حسین یادیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ زاہد اور عامر نے بھی کئی ویڈیوز اور تصاویر بنائیں اور خوب لطف اندوز ہوئے۔ زاہد اور عامر کا گروپ بھی ایک ہفتہ گزارنے کے بعد اپنے شہر روانہ ہوگیا۔
عامر پہلے سے بہتر لگ رہا تھا۔ اب وہ اپنی سوتیلی امی کی باتوں کو نظر انداز کرنے لگا اور خوش رہنے لگا۔ زاہد کو بھی اسے اس طرح دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
زاہد اب ہر چوتھے یا پانچویں ماہ سیر کا پروگرام بناتا اور عامر کے ابو سے اجازت لے کر عامر کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا۔ اسے دکھ صرف یہی تھا کہ اس کی سوتیلی ماں اس سے اچھا سلوک نہیں کرتی تھی اور عامر کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ ہنسنا بھول گیا تھا اور ہر وقت افسردہ رہنے لگا تھا۔
سیر پر جانے سے عامر کی حالت تبدیل ہو گئی اور وہ خوش خوش رہنے لگا۔ یونیورسٹی میں عامر اور زاہد کا آخری سال تھا، مگر ان کی دوستی اب بھی ویسی ہی ہے جیسی پہلے دن تھی۔
یہی ہمارے ملک کی شان ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کو اکیلا نہیں چھوڑتا، ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور مل جل کر ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو شاد و آباد رکھے اور سب کو پیار اور محبت سے رہنے کی توفیق دے۔
آمین ثم آمین۔
میری ہردم ہے دعا یا رب
اس وطن کو رکھے سدا یا رب
پھول ایسے کھلیں اس میں
جو تا قیامت مہکتے رہیں
اس وطن کی مٹی میں
پیارے شہید ہیں سوئے ہوئے
جان اپنی قربان کرکے
جنت میں اعلیٰ مقام ہیں پاتے
اس وطن کے یہ رکھوالے
اپنا تن، من، دھن لٹاتے ہیں
اے وطن کے باسیو تم
خوش رہو اور ایک ہو جاؤ