شان پاکستان (بھوک سے آزادی )
تحریر ۔ لائبہ ہدایت
14 اگست آزادی کا دن ہوتا ہے ہر گھر ،گلی ،محلہ دکانیں آزاذی کی جھنڈیاں سے سجے ہوئے ہوتے ہیں بچے ، جوان ، مرد، عورتیں سب نۓ کپڑوں اور نئی چیزوں سے خوب سجے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ہر طرف آزاد ہونے کا جشن منایا جا رہا ہوتا ہے اسی محلے میں ایک غریب عورت اور اسکے دو بچے بھی رہتے ہیں 5 سال کا چھوٹا بیمار اور 9 سال کی ایک بھوکی بچی جو محلے کے باقی بچوں کو نۓ کپڑوں سے سجا دھجا دیکھ کر اپنے دل میں حسرت کی آہیں بھرتی ہے وہ عورت محلے کے گھروں میں برتن مانجھ کر اپنے دو بچوں کو پالتی ہے ان کے گھروں سے ضائع بچا ہوا کھانا لے کر اپنی اور اپنے بچوں کی ایک وقت کی بھوک مٹاتی ہے ۔
ان دنوں عورت ملیریا کے بخار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کا م پہ نہیں جا رہی ہوتی جسکی وجہ سے اسکے بچے بھوکے ہوتے ہیں اکثر ۔ بیمار چھوٹا بچہ دودھ کے لئے تڑپ رہا ہو تا ہے ، بیٹی ایک وقت کے کھانے کے لیے بھوک سے نڈھال ہوتی ہے ۔بیٹی کبھی ماں کو دیکھتی تو کبھی باہر جھانکتی گلی میں کھیلتے طرح طرح کی چیزیں کھاتے بچوں کو دیکھ کر اسکی بھوک اور بھی زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہوتی ہے ۔
بچی اپنی ماں سے کہتی ہے کہ اماں یہ کیسے لوگ ہیں ہم کن لوگوں کے بیچ میں آگۓ ہیں کسی کو ہماری بھوک کی خبر نہیں کسی کو ہماری غربت اور بیماری کا احساس نہیں یہ کیسے لوگ ہیں آج اپنی آزادی منانے کے لیے ہزاروں خرچ کر رہے ہیں لیکن ہمیں ایک وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتے ۔ ایسا کیوں ہے کہ یہ لوگ آزاد ہیں اور ہم آج بھی غربت اور بھوک کی قید میں غلام ہیں ۔ ہمیں کب آزادی ملے گی اس بھوک سے ۔ یہ لوگ ہمیں آزاد کیوں نہیں کرواتے ؟ ہمیں کون آزاد کرواۓ گا ؟
بھوک سے نڈھال اور تنگ ہو کر بچی ماں سے سوال کرتی ہے کہ اماں پا کستان کی عوام کو آزادی کس نے دی ہے ؟
اماں جواب دیتی ہے کہ قاعد اعظم نے ۔بچی دوبارا اپنی اماں سے پوچھتی ہے کہ قاعد اعظم کون تھے ؟
اماں ۔ قاعد اعظم ایک بھت عظیم لیڈر تھے اس قوم کے جنہوں نے پوری قوم کو غلامی سے آزادی دلائی ۔بچی یہ سن کے اماں کا جواب سوچ میں پڑ جاتی ہے تھوڑی دیر کے بعد اماں سے کہتی ہے کہ کیا آج قاعد اعظم جیسا کوئی عظیم لیڈر اس قوم میں نہیں ہے جو ہمیں بھی اس غربت اور بھوک کی غلامی سے آزادی دلا سکے ؟
آج سب لوگ آزاد ہیں خوش ہیں اور ہم آج بھی بھوک کے غلام ہیں ایسا کیوں ہے اماں جو لوگ آزاد ہیں ان کو ہمارا احساسِ نہیں ؟
اماں بچی کے سوال سن کر زور زور سے رونے لگی اپنی بے بسی پہ ، بچوں کی بھوک پہ ، اپنی غربت پہ رونے لگی بچی ماں کو روتا دیکھ کر پریشان ہو گئی اور گھر سے باہر چلی گئی اور باہر گلی میں جا کر ادھر ادھر دیکھ کر لوگوں کو ہستا مسکراتا خوشی میں کیک کاٹتا دیکھ کر زور ، زور سے سب کو کہنے لگی کہ
کیا آج کوئی قاعد اعظم زندہ ہے اس آزاد قوم میں ؟
سب لوگ بچی کا سوال سن کر بہت حیران ہوۓ ۔ بچی بار بار یہی سوال پوچھ رہی ہوتی ہے ۔
ایک آدمی بچی کے پاس آتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے کہ یہ کیا کہہ رہی ہو ؟
بچی پھر کہتی ہے کہ کیا آج کوئی قاعد اعظم زندہ ہے جو مجھے بھوک کی غلامی سے آزاد کروا دے ، جو میرے بیمار بھائی کو دودھ کا دے ، جو میری ماں کو غربت کی غلامی سے آزاد کروا سکے ۔
یہ سب باتیں سن کر وہاں کھڑے سب لوگ بہت حیران ہوۓ بچی کی با تیں سن کر سب لوگ سوچ میں پڑ گۓ ،ایک بوڑھا آدمی کھانا لیکر بچی کے پاس آتا ہے اسکے سر پر ہاتھ رکھتا ہے ہاتھ میں کھانا دیتا ہے ،بچی کھانے کو دیکھ کر بھت خوش ہو جاتی ہے وہ کھانا لیکر اپنے گھر کی طرف بھاگتی ہے ،وہاں کھڑے سب لوگ خاموش اپنے ذہن میں اس سوال کا جواب سوچ رہے ہوتے ہیں
بوڑھا آدمی مڑ کر سب لوگوں کی طرف دیکھ کر وہی سوال پوچھتا ہے سب سے ،کیا ہے آج کوئی قاعد اعظم جیسا عظیم لیڈر زندہ جو غریبوں کو بھوک کی غلامی سے آزاد کروا سکے بھلے ایک وقت کی بھوک سے آزادی ہی کیوں نہ ہو ؟
آج سب لوگ اپنے آزاد ہونے کا جشن منا رہے ہیں نۓ کپڑے طرح ، طرح کے کھانے بنا رہے ہیں کیک کاٹ رہے ہیں ہزاروں خرچ کرتے ہیں لیکن غریب کی بھوک مٹانے کے لیے ان کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ہے سب لوگ شرم سے سر جھکائے سوچ میں گم کھڑے ہوتے ہیں وہاں پہ اس بچی کی بھوک کو یاد کر کے ۔۔۔۔۔۔۔
اس آزادی ۔ بھوک سے آزادی








