شانِ پاکستان
از قلم : ملک ثاقب شاد تنولی ایڈوکیٹ ایبٹ آباد
پاکستان… یہ صرف سات حرفی لفظ نہیں بلکہ ایک قوم کی پہچان، ایک عقیدہ، ایک نظریہ، اور ان لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں کا عکس ہے جنہوں نے صرف اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنا کل قربان کر دیا تاکہ آنے والی نسلیں اپنے آج کو آزادی میں جی سکیں۔

شانِ پاکستان کوئی مخصوص دن، کوئی تقریب، یا کوئی نعرہ نہیں — یہ تو ایک مسلسل جذبہ ہے، ایک لہو کی مہک ہے جو مٹی میں رچ بس گئی ہے۔ یہ وہ پرچم ہے جو ہر آسمان سے اونچا ہے کیونکہ اس کے نیچے ایسی قوم آباد ہے جو دکھ سہہ سکتی ہے، مگر اپنے وطن پر آنچ نہیں آنے دیتی۔

یہ شان اُن کسانوں کی ہے جن کے ہاتھوں کی مٹی میں پاکستان کی اصل خوشبو بسی ہے۔ یہ شان اُن مزدوروں کی ہے جن کے پسینے سے صنعتیں آباد ہیں۔ یہ ان سائنس دانوں، ان سپاہیوں، ان معلموں کی ہے جو خاموشی سے وطن کی خدمت کر رہے ہیں، اور ان نوجوانوں کی ہے جو روز بروز پاکستان کا نام دنیا میں روشن کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

شانِ پاکستان، قائد کے الفاظ میں چھپی ہوئی وہ بصیرت ہے جو انہوں نے "اتحاد، ایمان، قربانی” کی صورت ہمیں سونپی۔ یہ اقبال کے خواب کی وہ تعبیر ہے جس میں ایک خود دار، باوقار اور آزاد قوم کی جھلک دیکھی گئی۔جب ہم "شانِ پاکستان” کہتے ہیں تو اس میں ہر وہ بچہ شامل ہوتا ہے جو سائنس، ادب، کھیل یا فن کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کرتا ہے۔ ہر وہ ماں شامل ہے جو بیٹے کو وطن پر قربان کر کے سر فخر سے بلند رکھتی ہے۔ ہر وہ باپ شامل ہے جو بیٹی کو قلم پکڑاتا ہے تاکہ وہ کل کی رہنما بنے۔

آج اگر پاکستان چاند کو چھو رہا ہے، مصنوعی ذہانت میں آگے بڑھ رہا ہے، دنیا کے فورمز پر آواز بلند کر رہا ہے تو یہ اسی شان کا تسلسل ہے جس کا آغاز 1947ء کو ہوا تھا۔ مگر شان صرف کامیابیوں سے نہیں بنتی، شان بنتی ہے استقامت سے، قربانی سے، اور ان تھک محنت سے۔

پاکستان نے یہ سب جھیلا ہے۔ زلزلے آئے، سیلاب بہا لے گئے، دہشت گردی نے دہلا دیا، مگر یہ قوم جھکی نہیں۔ شانِ پاکستان اسی غیرت کا نام ہے۔یہ شان مظلوم کشمیریوں کے لیے بلند ہوتی ہے، فلسطین کے لیے دل دھڑکاتی ہے، اور عالم اسلام کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ پاکستان وہ خطہ ہے جہاں اذان کی آوازیں گونجتی ہیں، مسجدیں آباد ہیں، گوردوارے، چرچ، مندر سب اپنی جگہ قائم ہیں — یہی تو ہے اصل شان: برداشت، محبت، ہم آہنگی۔

مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم محض ماضی کی قربانیوں پر فخر نہ کریں، بلکہ حال کو سنواریں تاکہ آنے والا کل بھی اسی شان کو برقرار رکھ سکے۔ ہمیں تعلیم کو عام کرنا ہے، کرپشن کو ختم کرنا ہے، قانون کی بالادستی کو مضبوط کرنا ہے، اور اپنے وطن سے اتنی محبت کرنی ہے کہ دنیا کہے: واقعی، یہ پاکستان ہے… ایک باوقار قوم، ایک شان دار ملک! شانِ پاکستان تب مکمل ہو گی ۔پاکستان کی شان صرف ماضی کی قربانیوں میں نہیں، بلکہ حال کے ان چہرہ در چہرہ کرداروں میں ہے جو خاموشی سے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ وہ سپاہی جو برفانی مورچوں میں اپنے وطن کے لیے سینہ سپر ہے، وہ استاد جو کچی دیواروں کے نیچے بیٹھ کر بچوں کو پڑھا رہا ہے، وہ ڈاکٹر جو ہر مریض کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے، وہ مزدور جو چٹختے ہاتھوں سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، اور وہ ماں جو بیٹے کو وطن کے لیے تیار کرتی ہے — یہی ہیں وہ لوگ جو پاکستان کو شان بخشتے ہیں۔لیکن اس شان کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مخلص ہوں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف جھنڈا لہرا دینا، قومی ترانہ گا دینا، یا سوشل میڈیا پر محبت کے الفاظ لکھ دینا کافی نہیں۔اصل محبت تو وہ ہے جو عمل میں جھلکے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان مضبوط ہو، باوقار ہو، ترقی کرے، تو ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ امانت میں خیانت نہ کریں، کام میں دیانت رکھیں، زبان سے سچ بولیں، اور دل میں اخلاص رکھیں — کیونکہ یہی وہ اینٹیں ہیں جن پر ایک مضبوط پاکستان کھڑا ہو سکتا ہے۔

شانِ پاکستان تب ہی ہو گی جب ہم اپنے اداروں کی عزت کریں گے، اپنے قانون کو اپنا مانیں گے، اور اپنے وطن کے ہر شہری کو برابر کا پاکستانی سمجھیں گے۔ ہمیں نفرت، تعصب، فرقہ واریت، اور بدعنوانی جیسے ناسوروں سے نکلنا ہوگا۔ کیونکہ یہ بیماریاں نہ صرف ہمارے دلوں کو زہر آلود کرتی ہیں، بلکہ ہماری قوم کی روح کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ جب ہم اپنے ہم وطنوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں گے۔ جب ہم اختلاف کو دشمنی نہیں، بلکہ تنوع سمجھیں گے۔ جب ہم تنقید کو اصلاح کا ذریعہ سمجھیں گے۔ جب ہم صرف سوال نہیں کریں گے، بلکہ حل بھی دیں گے۔

آج، اگر ہم سب اپنے اپنے دائرے میں دیانت داری محنت اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ کام کریں، تو یقین جانیے یہ وطن وہ پاکستان بن جائے گا جسے دنیا "ترقی یافتہ”، "امن کا گہوارہ” اور "مثالی ملک” کہے گی۔

کیونکہ شانِ پاکستان تم ہو، ہم ہیں، یہ قوم ہے۔
یہ پرچم یہ مٹی یہ محبت ملک یہی ہماری شان ہے۔

Shares: