شان پاکستان
تحریر:قرۃالعین خالد،سیالکوٹ
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللّٰہ اور میری سنت جو انہیں تھام لے گا کبھی گمراہ نہ ہو گا۔” دین اسلام ہی دراصل شان پاکستان ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا وطن، جس کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ تھی۔ مسلمان اور ہندو دو الگ اقوام ہیں اور ان کے مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی مفادات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اس نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ آزادانہ طور پر زندگی گزار سکیں۔

آج 2025 میں وطن عزیز کے قیام کو اٹھہتر برس بیت گئے اور ہماری یاد داشت بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہو گئی۔ ہم اپنے آباء کی تکالیف اور قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ آزادی کے متوالے، بقاء کی جنگ لڑنے والے ہمارے بزرگوں کی کوششوں کو ہم نے پیروں تلے روند دیا۔

حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے۔ وطن عزیز اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مگر یہاں اسلام فرقوں میں بٹ گیا۔ دین اسلام ہی دراصل شان پاکستان ہے مگر کوا جب چلا ہنس کی چال تو اپنی بھی بھول گیا۔ آج کے نوجوان کو اغیار کے رسم و رواج پر فخر ہے۔ انہی اغیار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر آزادی کی شمعیں روشن کی گئی تھیں۔

کفار کے ملک میں نہ مسلمان بیٹی کی عزت محفوظ تھی نہ مسلمان بیٹے کا مستقبل، بس آج فرق صرف اتنا ہے کہ تب کفار یہ مظالم ڈھا رہے تھے اور آج پاکستانی اپنی مرضی سے یہی سب کر رہے ہیں۔ کل کفار کے ہاتھوں بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہ تھیں آج وطن عزیز میں ہمیں عزتوں کو پامال کرنے کے لیے اغیار کی ضرورت نہیں رہی۔

کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح واضح ہے کہ مسلمانوں نے جب جب شریعت کے پیغامات کو پس پشت ڈالا ہے وہ زبوں حالی کا شکار ہوا ہے۔ وہ رب العالمین کی رحمت و برکت سے دور ہوا ہے پھر چاہے وہ رزق کا زوال ہو یا رشتوں کی پامالی، چاہے ماپ تول میں کمی ہو یا کاروبار میں بے ایمانی، بےحیائی کلچر ہو یا نوجوانوں میں سگریٹ نوشی یہ سب باتیں مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہیں۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم میں حیاء باقی نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو۔”(صحیح البخاری6120)

شاید ہم اپنی نئی نسل کی تربیت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں یا شاید ٹیکنالوجی کی ترقی میں والدین اور رشتوں کی اہمیت کہیں کھو گئی ہے۔ میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں نہ ہی معاشرے میں کوئی منفی رویہ پھیلانا ہے لیکن جب تک بحثیت قوم اور انسان ہم اپنی کمزوریوں کی نشان دہی نہیں کریں گے اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک اصلاح ممکن نہیں ہے۔ یہ بات کہنا کہ پاکستان یا یہاں کا سسٹم کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا تو یہ بات نا صرف شان پاکستان کے خلاف ہے بلکہ ایمان کے بھی خلاف ہے۔

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومن رب کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔”

جب تک زندگی کا چراغ روشن ہے تب تک امید کی شمع بھی جلتی رہے گی۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جو زندگی سے تمام رابطے منقطع کرا دیتی ہے لیکن ہم تو زندہ ہیں اور ہمارا وطن بھی اپنی پوری شان کے ساتھ زندہ و جاوید ہے۔

آئیے کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنے وطن کی شان بڑھانے کے لیے اپنی غلطیوں کی نشان دہی کریں تاکہ اصلاح ممکن ہو سکے۔ آج ہم اجتماعیت کی نہیں انفرادیت کی بات کریں گے۔
"میرے لیے میرا عمل تمھارے لیے تمھارا عمل ہے۔”(البقرہ:139،یونس:41)

دیکھا جائے تو
جب خالق سے رشتہ کمزور ہوتا ہے۔
جب یوم خشر کی جوابدہی کا شعور نہ رہے۔
جب خوف خدا باقی نہ رہے۔
جب موت کو بھول جائیں۔
جب دنیا میں دل لگا لیں۔
جب رشتوں کی حرمت باقی نہ رہے۔
جب دین کا مذاق بنایا جائے۔
جب علم سے دوری ہو۔
جب شعور باقی نہ رہے۔
جب نظروں میں حیا نہ رہے۔
جب بےحسی اپنے عروج پر ہو۔
جب انسانوں کی غیرت مر جائے۔
جب اللہ پر توکل نہ رہے اس سے امید نہ رہے۔

تو
تب ماپ تول میں کمی آتی ہے۔
تب چیزوں میں ملاوٹ ہوتی ہے۔
تب دودھ میں پانی ڈالا جاتا ہے۔
تب چیزوں کی ہوس پیدا ہوتی ہے۔
تب بے ایمانی وجود میں آتی ہے۔
تب وعدوں کی پاسداری نہیں ہوتی۔
تب معصوم بچے ہوس کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔
تب حق مارے جاتے ہیں۔
تب ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔
تب رشتوں کو پامال کیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے ہمیں اس بات کو سمجھنا ہے کہ یہ زندگی ایک بار ملی ہے اور رب کی بہت بڑی نعمت ہے اس کا حق اس طرح ادا کرنا ہے جیسا رب العزت نے بتایا ہے۔ بحیثیت مومن ہمیں کسی پر الزام نہیں لگانا بلکہ اپنی زمہ داری کو قبول کرتے ہوئے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے اپنے اعمال پر توجہ دینی ہے۔ اللّٰہ کی رضا کی خاطر معاشرے کے لیے نفع مند مومن بننا ہے۔

ابھی وقت ہے اپنی نوجوان نسل کو سنھبالنے کا، ان کو اپنی مٹی سے جوڑنے کا، ان کی تربیت کرنے کا۔ ہم سارا الزام نئی نسل پر ڈال کر بری الزمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی تربیت کی ذمہ داری ہم پر ہی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کو الزام نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے ہاتھوں میں یہ سب ہم نے خود تھمایا ہے۔ ہم ان کو بے حسی کا الزام نہیں دے سکتے کیونکہ کہیں نہ کہیں غلطی ہماری ہے۔

اپنی غلطی کو تسلیم کریں، کھلے دل و دماغ سے اپنی نئی نسل کی تربیت کریں، پھر رب سے دعائیں کرتے ہوئے اس سے امید کا رشتہ باندھ لیں، تب دیکھیے گا محبت و امن کا سورج پیارے وطن عزیز پر کیسی آب و تاب سے چمکے گا کہ دنیا بھی ناز کرے گی۔

دعا ہے ربّ العزت رہتی دنیا تک شان پاکستان کو بلند رکھے، یہاں اسلام کا بول بالا ہو، امن و سلامتی ہو۔ آمین!

Shares: