شان پاکستان
از قلم: سمیہ اقبال
14 اگست 1947 صرف ایک دن یا تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ کا رخ موڑ دینے والا لمحہ ہے جس نے دنیا پر یہ واضح کیا کہ اسلام کی خاطر مسلمان کس حد تک قربانی دے سکتے ہیں۔ چودہ سو سال کے بعد مدینہ کی یاد تازہ ہوئی مدینہ بھی اسی مقصد کے حصول کے لئے دوبارہ آباد ہوا تھا تھا کہ وہاں اسلامی تعلیمات کا نفاذ ہو اور پاکستان کی بھی یہی خوبی ہے کہ اسے اسلامی تعلیمات کے نفاذ کے عزم سے بنایا گیا ہے۔

اس ریاست کی بنیادیں خون سے سیراب ہیں۔ جب پاکستان وجود میں آگیا تو برصغیر کا کوئی گھر ایسا نہ بچا تھا جس کے خاندان کے افراد مکمل ہوں راوی کو عبور کرنے کے لئے کسی کشتی یا پل کی ضرورت نہیں تھی لوگ لاشوں پر پاؤں رکھ کے راوی عبور کر گئے اس دن راوی کا پانی سفید نہیں سرخ تھا آزادی ایسے ہی حاصل نہیں ہوئی اس کی قیمت پر فرد کو دینی پڑی ہر ماں کو دینی پڑی، ہر بہن کو دینی پڑی، عزتیں نیلام ہوئیں، کوکھ اجڑی، سہاگ اجڑے، اس دن بچے بوڑھے ہوئے جس دن مسلمان ہندوستان کی سرحد پار کر کے پاکستان آئے۔ کیونکہ یہ ایک قدم کا فاصلہ نہیں تھا جو مسلمانوں نے طے کیا یہ چودہ سو سال کا فاصلہ تھا، یہ نظریے کا فاصلہ تھا اور اس ایک سرحد پار کرنے کی مسلمانوں نے بڑی بھاری قیمت چکائی مگر اپنے عزم ارادے حوصلے سے پیچھے نہ ہٹے۔

مسلمانوں نے بتایا کہ اسلام کی خاطر تن ، من دھن وہ سب وار سکتے ہیں۔ پاکستان کلمہ لا الہ الااللہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی مدینہ کے بعد سب سے بڑی ریاست ہے مگر آج مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے جس مقصد سے یہ وطن حاصل کیا ہم اسے بھلا چکے، وہ نظریہ وہ قربانیاں وہ سب ہم نے بھلا دیا افسوس صد افسوس اس ملک کو اس ملک کے ایک ایک فرد نے الگ الگ توڑا اس وطن سے شکوہ کناں ہوا بس یہ کہا کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا سوال تو یہ ہے کہ اس ملک کو ہم نے کیا دیا کل روز محشر جب وہ لوگ ہمارے دست گریباں ہونگے جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا کہ تم نے اس مٹی کے ساتھ کیا کیا تو ہم ان کو کیا جواب دیں گے ہم شرمندہ ہیں،

آج کے جوان کو اپنا وطن پسند نہیں اور وہ اپنے روشن مستقبل کا خواب یورپ میں دیکھتا ہے کاش کے وہ یہ سمجھ سکے اس وطن جیسا محبوب وطن پوری دھرتی پہ کہیں نہیں۔ اس وطن کی فضاء میں آزادانہ سانس لینے کے لئے ہم ہزار یورپ کے روشن مستقبل قربان کردیں۔ اس وطن کا ایک ایک زرہ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ آزادی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ افسوس اس وطن کو ہم نے خود اجاڑا اور الزام دوسروں پر ڈالا۔

یہ وطن ہمارا باغ ہے اس کی دیکھ بھال ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ وطن ہر شہری کی جاگیر ہے ہر شہری کی وراثت ہے اور اس کی ویسی ہی حفاظت ہمارا نصب العین ہے جیسے ہم اپنی وراثت کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم انفرادی طور پر کچھ نہیں کرنا چاہتے اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات بہتر ہوں ہمارا وطن ترقی کرے مگر جب ایک عام آدمی جھوٹ، چوری، رشوت نہیں چھوڑے گا تو وہ کیسے حکومت کو الزام دے سکتا ہے۔ ایک عام آدمی جب اپنے حصے کا پانی نہیں لگائے گا تو یہ باغ کیسے پھلے پھولے گا یہاں بہار کیسے آئے گی بہار کے لئے تو ضروری ہے ہم سب اپنے حصے کے پھول لگائیں۔

آئیں آج ایک عزم کرتے ہیں کہ ہم وہ کہانی دوہرائیں گے جس مقصد کے لیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دیں ہم اسے فراموش نہیں کریں گے، ہم اپنی نسلوں میں اس قربانی کا درد جگائیں گے، ہم انفرادی طور پر اپنے حصے کا دیا جلائیں گے۔

ہم اپنے آنے والی نسلوں کو بنائیں گے کہ پاکستان روئے زمین پر اللہ کا احسان ہے یہ وطن تو علماء کے شملے کا ہیرا ہے، یہ وطن تو اللہ کی طرف سے الہام ہے، یہ وطن تو راہ نجات ہے جائے سکوں ہے جس کا شکر ہم مرتے دم تک ادا نہیں کر سکتے ۔ہم پاکستان کو نئے سرے سے استوار کریں گے اقبال کی شاعری پر ، قائد کے نظریے پر۔ تھانوی کی تہجد کی دعاؤں پر۔ اب ہم اس وطن کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، ہم روز محشر ان لوگوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے جنہوں نے اس وطن کی آبیاری اپنے خون سے کی ہے۔

یہ وطن ہمارا ہے
ہم ہیں پاسباں اس کے

مجھے امید ہے آنے والی نسلیں اس وطن کی اہمیت کو سمجھیں گی کیونکہ اقبال نے بالکل صحیح کہا

نہیں ناامید اقبال اپنی کشت و ویراں سے
ذرا نرم ہو تو بڑی ذرخیز ہے یہ مٹی ساقی

پاکستان زندہ باد
پاکستان تابندہ باد

Shares: