شان پاکستان
تحریر: شگفتہ خان
اللہ تعالی نے مخلوق آدم کو خلق کیا اور پھر پہچان کےلئے ان کے قبیلے بنا دیے۔ یہی قبیلے ان کی شناخت بھی ہیں، پہچان بھی اور شان بھی ہیں۔ مسلمانوں کی پہچان اور ان کی شان پیارا وطن "پاکستان” ہے۔
14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا وطن "پاکستان” ایک الگ ملک کی حثیت سے روشن ستارہ بن کر چمکا تو مسلمان سجدہ شکر بجا لائے کہ آزادی ملی ہے تو اب اپنے دینی فرائض بھی آزادی سے سر انجام دے پائیں گے۔ یہ وطن جو ہمارے آباواجداد نے قائداعظم محمد علی جناح کی اور ان کے ساتھی رہنما کی ان تھک کوششوں سے ہندووں اور انگریز حکومت سے آزاد کروایا تھا۔ کس اذیت سے گذرے ہونگے جب ہندوستان سے پاکستان آنے کے لئے زندگی اور جوش و خروش سے بھر پور انسانوں سے بھری ٹرین روانہ ہوتی ہے اور جب وہ پاکستان کی حدود میں آکر رکتی ہے تو پوری ٹرین میں صرف لاشیں ہوتی ہیں۔ ہمارے اجداد نے ہجرت کا عذاب جھیلا ہے۔ اس ہجرت میں بسے بسائے گھر، چلتے ہوئے کاروبار، جائیداد اور زمینیں تو دیں ساتھ اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تہ تیغ ہوتے دیکھا ہے۔ اپنے گھر کی عورتوں کو اپنے سامنے لٹتے اور پھر موت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ” کے نعرے نے برصغیر کے مسلمانوں کو متحد ہو کر اپنے نظریے کے مطابق ایک الگ وطن کا حوصلہ دیا۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ تھا، جو مسلمانوں کے لئے اپنی راہ متعین کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ بے شک پاکستان اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جس کو اللہ نے بے بہا نعمتوں سے مالامال کیا ہوا ہے۔ وطن عزیز کو چار موسم دیے کہ گرمی، سردی، خزاں اور بہار — ہر موسم کے نظارے حسین اور دلکش ہیں۔ معدنی وسائل دیکھیں تو میرے خدا کی خاص رحمت ہے۔ یہ ایک زرعی ملک ہے، ہر موسم میں مختلف اجناس کی کاشت ہوتی ہے، ہر طرح کا پھل وافر مقدار میں موجود ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی بھی بہت ہیں، مہمان نواز اور جفاکش بھی ہیں۔ یہ وطن ہماری پہچان، ہماری شان ہے۔ ہم کسی بھی ملک میں جائیں تو ہماری شناخت "پاکستان” ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ ہمارے بہادر جوان ہر جگہ صف اول میں ہوتے ہیں، اس وطن پہ آنچ بھی نہیں دیتے۔ کوئی بری نظر سے اس وطن کو دیکھے تو سہی، صیحح معنوں میں اس کی آنکھیں نکال کر، اس کے چودہ طبق روشن کر دینے کا ہنر جانتے ہیں۔ 1965 اور 1971 کی جنگ کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہوئے ہیں۔ جب رات کی تاریکی میں دشمن نے یہ سوچ کر حملہ کیا کہ شائد پاکستانی فوج غفلت کی اتنی گہری نیند میں ہے کہ وہ ہمیں پھر سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ سکے گا، مگر اس کی غلط فہمی ثابت ہوئی۔ ہمارے بہادر فوجی جوانوں کے ساتھ عوام بھی ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔
پھر پاکستان نے پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے خود کو پہلا مسلمان ایٹمی ملک ثابت کیا۔ دشمن کی چالبازیوں کو نظر انداز کرنے پر ایک بار پھر اس نے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ پاکستانی افواج اگر چپ تھی تو صرف اس لئے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، اب یہ فرد واحد کی لڑائی نہیں ہے۔ پورے ملک کو ایک لمحہ میں دنیا کے نقشے سے ختم کیا جاسکتا ہے، لیکن دشمن اس چپ کو ہماری کمزوری سمجھا۔ سب کے سمجھانے پر بھی بھارت جارحیت سے باز نہیں آیا۔ بھارت نے مجبور کر دیا کہ پاکستانی فوج ان کے وار کا جواب دے ہی دے۔
9 مئی کو صبح صادق کے وقت اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کو پورا کرتے ہوئے "آپریشن بنیان مرصوص” کے لئے GF 17 تھنڈر نے اڑان بھری۔ وہ جانباز و جیالے شاہین جنھوں نے اڑان بھرنے سے پہلے خود اپنی وصیت اور ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کئے تھے۔ ان کا عزم تھا کہ اپنے ہدف تک پہنچنا ہے، پھر موت بھی رکاوٹ ڈالے تو پرواہ نہیں۔ بھارت کا وہ دفاعی نظام جس پر ان کو بہت غرور تھا، اس کو تباہ کرنے کےلئے 50 جہاز بھی کم تھے مگر پاکستان کے 2 شاہینوں نے نیست و نابود کیا اور پھر واپس بھی آگئے۔ 5 جیٹ طیاروں نے 3 گھنٹے 45 منٹ میں دشمن کے گھر جا کر 26 علاقوں کو ہدف بنایا اور دشمن کو ان کے ہی ملک میں دھول چٹا کر پاکستان لوٹ آئے۔ بھارت جو سوچتا تھا کہ پاکستان 10 دن بھی ٹک نہ سکے گا، 3 گھنٹے 45 منٹ میں سوچ کے اس بت کو ہمارے جانبازوں نے توڑ دیا۔ جن 3 باتوں کو ستون بنا کر بھارت نے خود کو سپر پاور سمجھ لیا تھا، ہماری بہادر فوج کے عقابوں نے 3 گھنٹے 45 منٹ میں وہ ستون زمین بوس کرکے بھارتی حکومت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
پاک فوج نے ہر مشکل وقت میں عوام کا ساتھ دیا ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا جنگ کے حالات، ہمارے بہادر جوانوں نے ثابت کیا کہ یہ ہمارے وطن کی شان ہیں۔ ڈاکٹرز، انجینئر اور سائنسدان — ہر کوئی اپنے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ اس وطن کی بدقسمتی کہہ لیں کہ اسے پھر قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی ان جیسا نڈر، محنتی، ایماندار، ہمدرد، مخلص اور با اصول حکمران پھر نہ مل سکا، جن کا مقصد وطن کو ترقی کی منزل پر چلانا ہو۔ دیکھا جائے تو اپنا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہو رہا ہے۔ بے شک آج کل معاشی حالات کچھ بہتر نہیں ہیں، لیکن نوجوانوں سے بہت پر امید ہیں کہ وہ اب اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں اور ترقی کی شاہراہ پر لے کر آئیں کہ یہ وطن جو ہمارے آباواجداد کے خوابوں کی تعبیر کی صورت میں ہمیں ملا ہے، ہماری پہچان، ہماری شان ہے۔ اس کو سنواریں۔








