شانِ پاکستان
تحریر: سیدہ شبانہ رضوی
"شانِ پاکستان” صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ یہ ہماری شناخت، ہمارے وقار، اور ہمارے خوابوں کا مجموعہ ہے۔ ہم سب کو مل کر اس شان کو برقرار رکھنا ہے — کیونکہ پاکستان ہم سب کی پہچان ہے، فخر ہے، اور زندگی ہے۔
تاریخ کے دریچوں میں جھانکو تو ایک صدا گونجتی ہے، جو لہو میں بھیگی ہوئی، آنکھوں میں خواب سجائے، اور دل میں یقین کا چراغ جلائے اُبھرتی ہے — وہ صدا ہے "پاکستان”۔
ایک ایسا خواب جو ستاروں کی روشنی میں نہ دیکھا گیا، بلکہ لہو کی سرخی، ماؤں کے آنسوؤں اور بے شمار قربانیوں سے تعبیر پایا۔
یہ سرزمین کوئی عام خطۂ خاک نہیں، یہ ایک تصور کا نام ہے — ایک نظریے کی بنیاد پر بننے والی پہلی ریاست۔ یہی ہے شانِ پاکستان۔
جب زمین تنگ ہو جائے، جب سجدوں پر پہرے ہوں، جب اذانیں گواہی بن جائیں، اور شناخت سوال بن جائے — تب خواب جنم لیتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں ایک خواب علامہ اقبال نے دیکھا، جس کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح نے بنائی۔
وہ خواب ایک ایسی دھرتی کا تھا جہاں مسلمان آزاد ہو کر سانس لے سکیں، جہاں اذانیں خوف سے نہیں، یقین سے گونجیں، اور جہاں دین و ثقافت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہو۔
14 اگست 1947 کو وہ دن طلوع ہوا، جب ظلم کے اندھیروں کو چیر کر ایک سبز ہلالی پرچم نے آسمان سے بات کی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک قوم نے اپنے ہونے کا اعلان کیا۔ یہی وہ سبز ہلالی پرچم ہے جو شانِ پاکستان اور پہچانِ پاکستان ہے۔
کسی بھی قوم کی عظمت اس کی قربانیوں سے پہچانی جاتی ہے۔ پاکستان کی بنیاد کوئی اینٹ اور پتھر نہیں بلکہ ماؤں کی ممتا، بیٹیوں کی عصمت، بزرگوں کے آنسو، اور نوجوانوں کے بہتے ہوۓ گرم لہو سے رکھی گئی۔
ریلوے اسٹیشنوں پر کٹے ہوئے جسم، جلتے ہوئے قافلے، اور سسکتی آوازیں — سب کچھ اس زمین کے لیے قربان ہوا۔ یہ تاریخ ہمیں صرف دکھ نہیں دیتی، بلکہ اس وطن کی قیمت یاد دلاتی ہے۔
یہی وہ قربانی ہے جو پاکستان کی شان کو دوام دیتی ہے۔ یہی وہ درد ہے جو ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم نے یہ وطن یوں ہی نہیں پایا، یہ ایک عظیم امانت ہے۔
پاکستان ایک گلدستہ ہے — جس میں ہر پھول اپنی مہک رکھتا ہے۔ پنجابیوں کی رونق، سندھیوں کا سنگیت، بلوچوں کا حوصلہ، پختونوں کی غیرت، سرائیکیوں کی مٹھاس، کشمیریوں کا عزم — سب مل کر پاکستان کی شان کو ایک لازوال رنگ دیتے ہیں۔
ہمارے تہوار، روایات، کھانے، ملبوسات، اور مہمان نوازی ایسی مثال ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں۔
یہ ثقافتی تنوع ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اختلاف کے باوجود ہم ایک ہیں — ایک پرچم، ایک وطن، ایک پہچان۔
اگر ہم اپنے وطن کی شان کو بیان کریں اور اُن ہیروز کا ذکر نہ کریں جنہوں نے اس شان کو اونچا رکھا، تو یہ داستان ادھوری رہ جائے گی۔
عبدالستار ایدھی کی خدمت، ڈاکٹر عبدالسلام کی ذہانت، ارفعہ کریم کا خواب، ملالہ کی جرات، اور سپاہیوں کی قربانیاں — سب اس وطن کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
سرحدوں پر پہرہ دیتے جوان، قلم سے انقلاب لاتے استاد، علم کے چراغ جلاتے طالب علم، اور خون سے تاریخ لکھتے شہید — یہی ہیں ہمارے ہیرو، ہماری شان۔
پاکستان ایک دن میں نہیں بنا، نہ ہی یہ ایک دن میں سنورے گا۔ ہمیں اس کی تعمیر ہر لمحہ کرنی ہے۔
پاکستان ایک خوبصورت خواب کی تعبیر ہے جو عدل، مساوات اور بھائی چارے کی بنیاد پر دیکھا گیا تھا۔ لیکن حقیقی شانِ پاکستان تبھی ممکن ہے جب ہر شہری کو یکساں انصاف، تعلیم اور ترقی کے مواقع میسر ہوں۔ یہی وہ ستون ہیں جن پر ایک پائیدار اور خوشحال قوم کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔
آج کے دور میں جہاں دنیا ترقی کی نئی منازل طے کر رہی ہے، پاکستان کو بھی اس وقت انصاف اور تعلیم کے دو مضبوط بازوؤں کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظامِ عدل جس میں امیر و غریب کا فرق نہ ہو، جہاں طاقتور کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور مظلوم کو بروقت انصاف ملے۔
اسی طرح تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو نسلوں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں طبقاتی نظامِ تعلیم نے معاشرتی تقسیم کو اور گہرا کر دیا ہے۔ جب تک ہر بچے کو یکساں معیار کی تعلیم نہیں دی جائے گی، تب تک ہم ایک مضبوط قوم نہیں بن سکتے۔
ترقی کا منصفانہ نظام وہ ہے جس میں صرف چند شہروں یا طبقات کو فائدہ نہ ہو، بلکہ ملک کے پسماندہ علاقوں تک بھی ترقی کی روشنی پہنچے۔ سڑک، بجلی، روزگار، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ہر پاکستانی کا حق ہیں، نہ کہ کسی خاص طبقے کی ملکیت۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں عزت و وقار حاصل کرے، تو ہمیں انصاف، تعلیم اور ترقی کو ہر فرد تک یکساں پہنچانے کے لیے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہی اصل شانِ پاکستان ہے — ایک ایسا ملک جہاں ہر انسان کو عزت، حقوق اور مواقع مساوی طور پر حاصل ہوں۔
یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے جدوجہد کی۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس خواب کو تعبیر دیں۔
ہمیں کرپشن سے نفرت، قانون کی پاسداری، انصاف کی یکساں فراہمی، تعلیم کی روشنی، اور برداشت کا پیغام عام کرنا ہے۔
ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھ تھامیں، ایک دوسرے کی طاقت بنیں، اور مل کر اس وطن کو وہ مقام دلائیں جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔
جب بھی سبز ہلالی پرچم ہوا میں لہراتا ہے، دل سے ایک دعا نکلتی ہے:
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہ شان قائم رہے، یہ پرچم بلند تر ہو
اور ہم سب، اس وطن کے وفادار رہیں، سرشار رہیں۔
پاکستان، تُو ہماری پہچان ہے
تُو ہمارا فخر ہے
تُو ہماری "شان” ہے۔
پاکستان زندہ باد، پائندہ باد!








