عوام کے منتخب وزرائے اعظم کا مقتل ،تجزیہ : شہزاد قریشی
حالیہ دنوں میں قومی سیاسی حلقوں میں جہاں انتخابات، مہنگائی اور سرکاری کفایت شعاری کے حوالہ سے بحث مباحثہ جاری ہے وہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سلامتی اور حفاظت کے حوالہ سے بھی اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ اس عنوان سے تجزیئے اور تبصرہ کی نوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عمران خان کی زندگی کو درپیش خطرات اور خدشات کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ گذشتہ سے پیوستہ روز اسلام آباد میں سابق وزیر قانون اور اب پی ٹی آئی کے صف اول کے رہنما بابراعوان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو سنائپر یا خود کش حملے میں نشانہ بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔ابھی لانگ مارچ شروع نہیں ہوا تھا کہ ہمیں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی اطلاع ملی تھی ۔ حتیٰ کہ عمران خان نے خود بھی 2 مرتبہ یہ بات دہرائی۔ بابر اعوان نے مزید کہا کہ میں نے ماضی قریب میں میڈیا کے روبرو یہ انکشاف کیا تھا کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوگا جس پر بعض لوگوں نے میرا تمسخر اڑایا اور میرے اس بیان کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ میں اب دوبارہ قوم کو اس خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں کہ عمران خان کو سیکیورٹی کے حوالے سے تنہا کیا جارہاہے اورعمران خان کو اسلام آباد کچہری بلا کر بم سے اْڑانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے چنانچہ ہمیں یہ تحریرفراہم کی جائے کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔ ادھر ایک ٹویٹ میں پی ٹی آئی کے مرکزی سینئر نائب صدر فواد چوہدری اور سینئر رہنما افتخار درانی نے بھی اپنے اپنے ٹوئٹ میں بیان کیا ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی سامنے آ چکی ہے لہذا ان کی سیکورٹی کو جامع بنایا جائے۔ اسلام آباد کچہری میں عمران خان پر سنائپر یا خود کش حملہ کروانے کی سازش ہے ، اعلیٰ عدلیہ فوری نوٹس لے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان پر یکے بعد دیگرے اور بلاجواز مقدمات اس لئے بنائے جا رہے ہیں تا کہ ان پر ایک اور قاتلانہ حملے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے جن خدشات اور خطرات کا اظہار کیا جا رہا ہے، ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کیا بھی نہیں جانا چاہیے کیونکہ ماضی میں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ عوام کو خوب یاد ہے کہ وطن عزیز کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں (جو اب ان کے نام سے منسوب ، لیاقت باغ ہے) 16اکتوبر 1951ء کو اس وقت گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا جب انہوں نے ایک جلسہ عام میں اپنے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا۔ اسی طرح وطن عزیز کے پہلے منتخب وزیراعظم اور قائداعظم کے بعد سب سے زیادہ مقبول سیاستدان، ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو راولپنڈی میں ہی سنٹرل ڈسٹرکٹ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کی ذہین و فطین صاحبزادی اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد واپس جا رہی تھیں۔ اب سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھیوں کی طرف سے ان کی زندگی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو اس پر عوام کی طرف سے تشویش پر مبنی ردعمل ایک قدرتی بات ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب 3 نومبر 2022ء کو وزیرآباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے بعد خود عمران خان نے کئی مرتبہ یہ بیان دیا کہ ان کو منظر عام سے ہٹانے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان پر ہونے والے حملے کی فوری اور شفاف تفتیش کرائی جاتی لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تفتیش کا یہ مرحلہ ابھی تک طے نہیں ہوا اور ایسے میں گرفتار شدہ ملزم کے خلاف ہنوز کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ سیاسی حریف اس واقعہ پر ایسی تبصرہ آرائی کرتے ہیں جس کو نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر سیاسی مخالفین کے بارے میں انتقامی جذبہ اور سلوک کا یہی عالم رہا تو اس کا نتیجہ کس صورت میں سامنے آئے گا کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ ایوان اقتدار میں کسی کا قیام بھی مستقل نہیں ہوتا ۔ دربار سے بازار تک اور بازار سے دربار تک کا سفر ہر کسی کا مقدر بن سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ حقیقت بھی فراموش نہ کی جائے کہ اگر وطن عزیز اپنے وزرائے اعظم کا اسی طرح مقتل بنتا رہا تو اس سے مہذب اور عالمی برادری میں ہماری شناخت اور وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔