یاد ماضی عذاب ہے یا رب،عمران خان ہر حال میں گھر جائیں گے، مبشر لقمان کا تہلکہ خیز انکشاف
یاد ماضی عذاب ہے یا رب،عمران خان ہر حال میں گھر جائیں گے، مبشر لقمان کا تہلکہ خیز انکشاف
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کیا وزیر اعظم ہر حال میں گھر جائیں گے۔۔؟کیا اعتماد کا ووٹ لینے کے باوجود مصیبتوں کا پہاڑ سامنے کھڑا ہے۔۔یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔
کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔کیا عمران خان کی پیٹھ اب ہر طرح کے وار کے لیئے ننگی ہو چکی ہے جسے ڈھائی سال سے غیبی طاقتیں تحفظ دے رہی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک اور وزیر اعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔اعتماد کا ووٹ لینے کے ایک ماہ کے اندر اسکا کیا انجام ہوا تھا۔۔؟ وہ انجام حیران کن تھا۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آج کی اس ویڈیو میں ہم بات کریں گے کہ کیا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد عمران خان کے لیئے سب اچھا ہی اچھا ہو گا یا کھیل خراب ہو چکا ہے اور اس کے اب ٹھیک ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ اور اس کی گواہی ہماری تاریخ دیتی ہے۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے۔کھیل پنجاب سے شروع ہو گا اور وفاق تک جائے گا۔؟یہ ویڈیو دیکھ کر آپ کے سامنے اگلے چھ ماہ کے اندر اندر ہونے والے تمام واقعات کی ویڈیو چل جائے گی۔ سینٹ کے بعد پنجاب میں کیا ہو گا، وفاق میں کیا ہو گا ۔۔؟اب عمران خان پر چاروں طرف سے کس قسم کے حملے ہونے جا رہے ہیں اس سب کی ہم آپ کے سامنے منظر کشی کریں گے۔اب ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے بقیہ اڑھائی سال آسانی سے نہیں گزریں گے، اپوزیشن سینیٹ میں اپنی فتح کے بعد بار بار حکومت پر وار کرے گی۔اور حکومت کے راستے میں احتجاج، عدم اعتماد اور لانگ مارچ کے کانٹے بچھائے گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ
یہ وار کبھی سپیکر نیشنل اسمبلی پر ہوں گے تو کبھی چیئرمین سینٹ پر، کبھی پنجاب حکومت پر تو کبھی وفاقی حکومت پر۔اس سے پہلے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں جو اپوزیشن کے ساتھ ہوا تھا اس نے اپوزیشن کے اعتماد کو بری طرح جھنجوڑدیا تھا اور اپوزیشن کسی صورت پارلیمانی محاذ پر حکومت کو چیلنچ کرنے کے لیئے تیار نہیں تھی۔ لیکن یوسف رضا گیلانی کی جیت نے اس محاذ پر اپوزیشن کو بڑھ چڑھ کر حملہ کرنے کا حوصلہ دے دیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اگر گھر جائے گی تو آئینی طریقے سے ہی جائے گی۔ لانگ مارچوں سے حکومت گھر بھجنے اور استعفی لینے کی سیاست پاکستان میں دفن ہو چکی ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ڈھائی سال سے اپوزیشن سے ننگی گالیاں کھانے والا ۔۔الیکشن کمیشن اب حکومت پر جس طرح گرج رہا ہے جس طرح ایک دم سے اس کی غیرت جاگ گئی ہے ،جو وہ ڈسکہ انتخابات کے دوران کر چکا ہے۔ جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ حفیظ شیخ کے معاملے میں صادق سنجرانی کی تاریخ نہیں دھرائی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ عمران خان کی پیٹھ اب ننگی ہے۔ جسے ڈھائی سال سے محفوظ رکھا گیا ۔۔اب ہر طرف سے حملے ہوں گے اور کس طرح کے ہوں گے میں آپ کو تاریخ سے کچھ واقعات بتا دیتا ہوں جو یقینا دہرائے جائیں گے۔ہم گزشہ ڈیڑھ سال سے سن رہے ہیں کہ پاکستان کے طاقتور حلقے حکومت کی کارکردگی اور ملکی حالات سے ناخوش ہیں اور تبدیلی کے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ پھر کرونا نے حکومت کو ایک نئی زندگی دی اور اس کے بعد پی ڈی ایم کی تحریک کے بعد اس وقت صورتحال مختلف ہے۔ اور معاملات سڑکوں پر خراب ہوتے ہوتے اسمبلیوں تک پہنچ چکے ہیں۔اگر آپ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ پاکستان میں تاریخ اپنے آپ کو دھرانے جا رہی ہے اور شائد موجودہ حکومت کا انجام بھی وہی ہو جو انیس سو ترانوے میں میاں نواز شریف کی حکومت کا ہوا تھا اور انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کے باوجود اپنے گھر جانا پڑا تھا۔ہم نے اپنی زندگی میں خاص طور پر نوے کی دہائی میں جو آئینی بحران، سیاسی عدم استحکام، پارلیمان اور جمہوری حکومتوں کی بے وقتی نوے کی دہائی میں دیکھی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یہ وہ دور ہے جب راتوں رات بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیئے اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اور مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی قیادت میں ایک نو جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا۔ نتیجہ ایک معلق پارلیمنٹ کی صورت میں نکلا۔ پیپلز پارٹی کو 93 اور آئی جے آئی کو 54 ، ایم کیو ایم کو تیرہ، جے یو آئی (ایف) کو سات اور اے این پی کو دو نشستیں ملیں۔آج بھی صورتحال کچھ اسی طرح سے ہے بس جماعتوں کے ناموں کا فرق ہے۔صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو حکومت سازی کی دعوت دی لیکن شرائظ رکھی کہوہ افغان اور کشمیر پالیسی اور ایٹمی پالیسی میں مداخلت نہیں کریں گی۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ صدارتی انتخاب میں جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست غلام اسحاق خان کی حمایت کریں گی۔بے نظیر بھٹو نے نہ صرف شرائط مانی بلکہ پوری بھی کی۔ لیکن پھرمسلح افواج کے سربراہوں اور ججوں کی تقرری کے معاملے پر اختلافات اتنے بڑھے کہ چھ اگست انیس سو نوے کو صدر نے اٹھاون ٹو بی کے تحت بے نظیر حکومت کو بدعنوانی اور نااہلی کا مرتکب قرار دے کر گھر بھیج دیا۔بے نظیر کے سیاسی مخالف غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنایا گیا اور آئی جے آئی کو ہر طرح کی مدد فراہم کر کے پیپلز پارٹی کے تمام سیاسی مخالفین کو اکھٹا کر کے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بنوا دیا گیا۔لیکن پھر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے
نواز شریف کے درمیان جلد ہی بالکل اسی انداز کی کشمکش شروع ہوگئی جو بے نظیر حکومت کے زوال کا سبب بنی تھی۔ یعنی مسلح افواج کے سربراہوں اور ججوں کی تقرری کا معاملہ۔ چنانچہ جب یہ اختلافات سڑک پر آ گئے اور ایوانِ وزیرِ اعظم اور ایوانِ صدر دو متحارب کیمپوں میں تبدیل ہوگئے تو غلام اسحاق خان نے ڈیڑھ برس میں دوسری دفعہ آئینی وار کیا اور انیس اپریل انیس سو ترانوے کو نواز شریف حکومت برطرف کر کے میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیرِ اعظم نامزد کردیانواز شریف نے اٹھاون ٹوبی کے تحت برطرفی کے اقدام کو صدر کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ۔سپریم کورٹ نے چودہ مئی کو برطرف حکومت بحال کردی اور صدر غلام اسحاق خان کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔بی بی سی اردو کے مطابقاگلے روز نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں جمہوریت اب خدا کے فضل سے صحیح معنوں میں ریسٹور ہوئی ہے اور غیر جمہوری ہتھ کنڈے کامیاب نہیں ہو سکے۔پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دن بدلنے والے ہیں۔اور پاکستان کو اب اس ڈگر(جمہوریت) سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بھی سب سمجھ رہے تھے کہ میاں نواز شریف کی حکومت پر اٹھاون ٹو بی چلنے کے بعد اور پھر سپریم کورٹ سے بحال ہونے کے بعد، اسمبلی سےVote of confidanceلینے کے بعد
اب سکون اور استحقام کا دور شروع ہو چکا ہےلیکن کھیل شروع ہونے کےبعد ادھورا نہیں رہ سکتا اور کھیل نے تو پورا ہونا تھا۔ایک دم سے بھاری اکثریت رکھنے والے میاں نواز شریف کے خلاف پنجاب میں ایک باغی گروپ نے بغاوت کر دی۔نہ صرف اس گروپ نے بغاوت کی بلکہ ن لیگ کے گورنر میاں اظہر نے بھی استعفی دے دیا۔یا ان کو استعفی دینے کا حکم کہیں سے آیا تھا۔اب میاں نواز شریف کے مفادات کا تحفط کرنے والا پنجاب میں کوئی نہ تھا اور جمہوریت کو نئی زندگی ملنے کا دعوی کرنے والے نواز شریف ایک ماہ کے اندر اندر اپنے ہی صوبے میں اجنبی ہوگیا تھے۔فوری طور پر پیپلز پارٹی نے منظور وٹو کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ایک منٹ رکیے یہاں پر۔۔۔۔۔آج کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں۔پی ڈی ایم پنجاب پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔سینٹ الیکشن میں پنجاب میں جس طرح اپوزیشن نے چوہدری پرویز الہی کی سن کرSeat adjustmentکی ہے وہ بہت سوں کی سوچ سے باہر ہے لیکن اس کی سمجھ۔۔۔ آنے والے چند ماہ میں لگ جائے گی۔کیا چوہدری سرور پنجاب میں تحریک انصاف کے لیئے کوئی بڑا پریشر برداشت کر سکتے ہیں۔ذرا سوچ کے کامینٹس باکس میں بتائیے گا۔میرے خیال سے چوہدری سرورصاحب تو کیا کوئی اور بھی ہوتا تو مشکل ہوتا۔ن لیگ، چوہدری برادران اور تحریک انصاف کا پنجاب میں متوقع باغی گروپ کیا تاریخ دہرائے گا۔؟سوچنے کی بات ہے جبکہ وسیم اکرم پلس کے بدلنے کے لیئے پہلے ہی طاقت ور حلقے عمران خان کو بہت سمجھا چکے ہیں اور پنجاب کی تباہی دیکھ کر کڑ رہے ہیں۔ بہت سی باتوں میں سے اگر یہ بات عمران خان مان لیتے تو شائد یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ منظور وٹو صرف ڈیڑھ درجن ارکان کے ساتھ ۔۔ پیپلز پارٹی کی حمایت سے وزیر اعلی بن گئے۔ اور پھر مرکز میں نواز شریف کو زچ کر کے رکھ دیا گیا۔ جس طرح نواز شریف بے نظیر کو کرتے رہے تھے۔یہ بات یاد رکھیں اس وقت چوہدری پرویز الہی سمیت بڑے سیاسی کھلاڑی نواز شریف کے ساتھ تھے لیکن آج عمران خان کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کرنے والا واحد کھلاڑی جہانگیر ترین بھی نہیں ہے۔ عمران خان کے اردگرد لوگوں کو دیکھیں ان کا سیاسی تجربہ دیکھیں تو آپ کو سب کچھ خود بہ خود سمجھ آجائے گی۔ان کھلاڑیوں کا انیس سو ترانوے میں یہ حال تھا کہ ان کے لیئے وزیر اعظم ہونے کے باوجود پنجاب میں ان کے ملاقاتیوں تک کو تنگ کیا جاتا تھا گورنر چوہدری الطاف حسین نے ان کے لیئےپنجاب میں زمین تنگ کر دی تھی۔ اور یہ رینجرز کی مدد لینے پر مجبور ہوگئے ۔ سندھ پنجاب کی ٹریفک بند کرنے ، بلوچستان گیس بند کرنےاور اس وقت کا صوبہ سرحد اور آج کا ۔۔ کے پی کے ۔۔ وفاق کی بجلی بند کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپوزیشن کی آل پارٹی کانفرنس کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کا اعلان کیا ہوا تھا۔ویسے لانگ مارچ کا اعلان تو پی ڈی ایم نے بھی کیا ہوا ہے۔سپریم کورٹ سے حکومت کی بحالی کے بعد سیدہ عابدہ حسین جوامریکہ میں پاکستان کی سفیر تھی نے ایک با خبر امریکی ذمہ دار سے یہ کہہ دیا کہ سیاسی استحکام کا راستہ ہموار ہو چکا ہےجس پر اس نے کہا کہ نہیں آپ لوگ ایک مڈ ٹرم انتخاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔عابدہ حسین کے مطابق اس وقت ایسی بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔بے نظیر کے لانگ مارچ کے اعلان اور صوبوں میں کھینچا تانی کی وجہ سےملک میں عجیب کشمکش کی صورتحال تھی، مارشل لا کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔کور کمانڈر کانفرنس کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے فیصلہ کیا کہ جو بھی ہو گا آئین کے مطابق ہو گا۔ اور پھر سارے فریقین کو بیٹھایا گیا۔ بے نظیر بھٹو سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں لانگ مارچ کرنا چاہتی ہیں انہوں نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جسے فوج نے مان لیا اور اس کے بعد وزیر اعظم اور صدر کو بھی فوج نے ہی استعفی دے کر نئے الیکشن کروانے کا پیغام دیا اور دونوں نے استعفی دے دیا۔اور یہ کام اعتماد کا ووٹ لینے کے چند ہی ہفتوں میں ہوگیاآج ہم حالات پر نظر ڈالیں تو پی ڈی ایم کا اپوزیشن آلائنس موجود ہے۔پنجاب میں تحریک انصاف کے لیئے کسی بھی وقت نمبر گیم کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے
وفاق میں حکومت اتحادیوں کے سر پر ہے۔بظاہرایمپائر نیوٹرل ہو چکے ہیں اور نوے کی دھائی کی طرح درمیانی راستہ نکالنے میں تمام فریقین کی مدد کرنے کے لیئے تیار ہیں۔ اب دیکھتے ہیں حالات کس رخ کروٹ لیتے ہیں۔
آئندہ تک کے لیئے اجازت دیں اللہ حاٖفظ