باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں دو شخصیات ایسی گزری ہیں ۔ جن کے بارے کہا جائے کہ وہ وقت سے پہلے مستقبل پر نظر رکھتے تھے بلکہ آنے والے حالات کو پڑھ لیتے تھے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ آجکل جو کچھ ہورہا ہے ۔ میں کسی ہر تہمت نہیں لگانا چاہتا ۔ مگر ان دونوں اشخاص کی کہی ہوئی باتیں کانوں میں گونج رہی ہیں
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جس جانب نظر دوڑآئیں گے زوال ہی زوال دیکھائی دیتا ہے ۔ معیشت ، قانون کی حکمرانی ، نظام عدل کا رونا تو بہت عرصے اس ملک میں جاری ہے ۔ مگر یہ شاید پہلی بار ہے کہ ملک کا وزیر اعظم خود کہتا ہے کہ معیشت ٹھیک نہ ہو پھر دفاع تو متاثر ہوگا ۔ پہلی بار میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ پہلی بار ہے کہ بردار اسلامی ممالک ہوں یا چین جیسا دوست ہر کوئی ناراض ہے ۔ پہلی بار ہے کہ کشمیر کو دن دھاڑے بھارت ہڑپ کر لیتا ہے مگر ہم اوآئی سی تک کو متحرک نہیں کر پاتے ہیں ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھا جائے تو اس حکومت کو دو خبط ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر بات کو انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے اس سے پہلے کبھی نہ ہوا اور دوسرے یہ کہ اس سے پہلے ستر سال تک اس ملک پر احمقوں ، بددیانت اور غداروں کی حکومت رہی۔ ۔ کارنامے تو ان کے بہت بڑے بڑے ہیں جن کو گنوانا شروع کیا جائے تو eries of books لکھنی پڑ جائے گی ۔ مگر حالیہ جو قومی سلامتی پالیسی کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کے کئی پہلو ملک کے اندر اور باہر بحث و تجزیے کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ وہ بہت غور طلب چیز ہے ۔ اس سلسلے میں کئی پہلووں کو لے کر تنقید بھی ہورہی ہے۔ ایک چیز جس پر سب سے زیادہ اعتراض ہورہا ہے کہ ۔ مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کا یہ بیان جو انھوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے جو کچھ کہا وہ یقینا عوام سمیت پاکستان میں بہت سے حلقوں کے لیے بے چینی اور اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ بے چینی اس لیے ہے کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے اور اگر بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہو جائے تو ہم بھارت کے ساتھ کشمیر کو درمیان میں لائے بغیر تجارت کرنے کو تیار ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ تجارت اور اقتصادیات ہماری پہلی ترجیح بن گئے ہیں اور کشمیر کا نمبر اسکے بعد آتا ہے؟ ۔ پھر پالیسی میں کہا گیا کہ پاکستان خطے اور تمام دنیا کے ساتھ برابری اور باہمی عزت کی بنیاد پر امن چاہتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم توعرصے سے تیار ہیں۔ پر سوال ہے کہ کیا بھارت بھی ہمارے ساتھ عزت اور برابری پر تیار ہے؟
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہم تجارت اور امن کی خواہش میں یک طرفہ طور پر اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ ہم نے کشمیری عوام ، انکے مصائب اور ان پر ڈھائے جانیوالے بھارتی مظالم بھلا کر بھارت کے اگست 2019ء کے اقدامات قبول کر لیے ہوں۔ اس سے تو تاثر یہ ملتا ہے کہ ہمارا واحد اور سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ بھارت بس ہمارے ساتھ بات چیت کیلئے راضی ہو جائے۔ یا چلو کرکٹ ہی کھیل لے۔ تو ہم راضی ہوجائیں گے۔ میرے خیال سے کسی بھی باشعور شخص کو بھارت کے ساتھ تجارت پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ بھارت پر ابھی حملہ کر دیں۔ لیکن اس قسم کے اعلانات بطور پالیسی کرنا بھی سمجھ سے باہر ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر ہم نے اپنی خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی کرنی ہے، یا کسی درمیانی راستے پر غور کرنا ہے تو کیا اس سلسلے میں بھارت سے کوئی بات کی گئی ہے کہ ہمیں بدلے میں بھی کچھ ملے گا یا نہیں؟
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اسی حوالے سے ایک اہم عہدیدار کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہم آئندہ سو برس تک بھارت کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتے۔ نئی پالیسی قریبی ہمسایوں کے ساتھ امن کی بات کرتی ہے۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کے کچھ اخبارات میں شائع ہوا بلکہ بھارت میں اسے بہت اہم قرار دیا گیا۔ خطے میں قیامِ امن کی خواہش یقینی طور پر قابلِ ستائش ہے اور پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ماضی میں بھی اس خواہش کا اظہار کرتی رہی ہے تاہم اس خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ ۔ پھر کیا آج کے دور میں بھی یہ دانشمندی ہے کہ اس قسم کے فیصلے جو ملک کی سمت اور تقدیر تبدیل کر رہے ہوں وہ ایوانوں کی بلند دیواروں کے پیچھے کیے جائیں اور عوام سے خفیہ رکھے جائیں؟
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل سیکورٹی کی جو دستاویز جاری ہوئی ہیں ان میں توانائی، تعلیم، صحت سے لیکر دہشت گردی اور عالمی امن تک سب مسائل کے ذکر کے ساتھ صفحہ نمبر پینتیس پر جموں اور کشمیر کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اس مسئلہ کو پر امن طور پر بذریعہ بات چیت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق حل کیا جانا چاہیے۔۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب موجودہ اور تبدیل شدہ دنیا میں کتنی موثر ہیں ۔ خاص طور پر بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد ۔۔۔ ۔ یاد رکھیں ایسی یک طرفہ محبت کا نتیجہ کہیں یہ نہ ہو کہ ہم مقبوضہ کشمیر کو سائیڈ پر کر کے تجارت کی امید لگائے بیٹھے ہونگے اور بھارت ہم سے آزاد کشمیر کا مطالبہ کر رہا ہو۔ اور اس وقت ہم عالمی برادری کو کہتے پھریں کہ کسی طرح ہمارا آزاد کشمیر ہی بچا دو۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نظریے اور پاکستان کی شہہ رگ کو ایک جانب رکھ کر صرف تجارتی اور اقتصادی اصولوں کی بات کریں تو بھی حقائق اور اعداد و شمار کیمطابق موجودہ حالات اور قوانین میں بھارت کے ساتھ تجارت نہ تو پاکستان کی اقتصادی مشکلات حل کر سکتی ہے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل کا حل تجارت میں مل سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہمیشہ سے کشمیر رہی ہے، اور کشمیر ہی کی بنیاد پر ہم بھارت کے ساتھ بار بار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس پالیسی کی تشکیل کے وقت کشمیری عوام سے بھی تفصیلی مشورہ کیا گیا ہو گا اور انکی امنگوں اور حقوق کو بھی نظر میں رکھا گیا ہو گا۔ کیونکہ اس خطے کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ سے بھارت کے گرد ہی گھومتی ہے اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشمیر کے گرد گھومتے ہیں۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا مرکزی نقطہ ہے اور اسے کسی بھی صورت میں ایک طرف رکھتے ہوئے تعلقات کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے جو بھی لائحہ عمل طے کیا گیا وہ واضح طور پر عوام کے سامنے رکھنا جانا چاہیے کیونکہ یہ بیان کچھ غلط فہمیوں کو جنم دے رہا ہے اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف پر ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ عجیب اتفاق ہے کہ اس پالیسی میں کہاگیا ہے کہ قومی سلامتی کی بنیاد معیشت پر ہے۔ اسکے بعد یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے سٹیٹ بینک کی خودمختاری ضروری ہے۔ اس خودمختاری کو بعض لوگ بینک کی غلامی قراردیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو آئی ایم ایف کی طرف سے ملک کا اقتصادی وائسرائے بنانے کے مترادف ہے۔ اب جو یہ بحث ہورہی ہے ہمارے عسکری اکائونٹ صرف اور صرف سٹیٹ بینک میں رکھے جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی یہ خواہش کیوں ہے۔۔ وزیراعظم کا یہ فرمانا کہ جب ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو قومی سلامتی پر حرف آتا ہے۔ ان کے اس بیان سے واقعی اب سارا ملک گھبرایا ہوا لگتا ہے ۔ پھر کچھ لوگ چیخ رہے ہیں کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو خطرہ ہے۔ یہ سب باتیں جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ تشویش کس بات کی ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سوچ کر بہت دکھ ہوتا ہے ۔ بائیس تیئس کروڑ آبادی والا ملک پاکستان جسے اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے جس کے لوگ بہت محنتی اور باصلاحیت ہیں وہ اپنے حکمرانوں اور کی غفلت اور ان کے وزیر و مشیروں کی مفاد پرستیوں کی وجہ سے دنیا میں ایک بھکاری کی سی پہچان بنائے ہوئے ہے ۔کہیں کوئی تھنک ٹینک نہیں جو یہ سوچے کہ اس ملک کا مسقتبل کیسے محفوظ بنا جاسکتا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب بہت سے پاکستانی خودکشیاں کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔۔ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے کیونکہ وہ ہی ہماری سلامتی کا سب سے بڑا ضامن اور آخری امید ہے ۔ مگر یاد رکھیں اس وقت جو یہ بحث جاری ہے وہ یوں ہی نہیں ہورہی ہے