اسرائیلی فوج کی غزہ میں بمباری سے حماس کے شہید رہنما یحییٰ السنوار کے بھائی سمیت 144 فلسطینی شہید ہو گئے۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرئیلی فوج نے خان یونس پر بم برسائے ، جس میں یحییٰ سنوار کا دوسرا بھائی بھی شہید ہو گیا، زکریا سنوار کا جسد خاکی ملنے کی تصدیق کر دی گئی، وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، زکریا کے بیٹے بھی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو گئے۔

سیف زون المواسی کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 36 فلسطینی شہید ہوئے ، شہید ہونے والوں میں صحافی جوڑا خالد ابوسیف اور نور قندیل بھی شامل ہے۔

غزہ میں خوراک اورادویات کی شدید قلت بھی جاری ہے ، تمام اسپتال طبی خدمات سرانجام دینے سے قاصر ہو گئے ہیں دوسر ی جانب اسرائیل نے غزہ میں جاری مکمل ناکہ بندی کے دو ماہ بعد بالآخر "بنیادی مقدار” میں خوراک داخل کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق یہ فیصلہ فوج کی سفارش پر کیا گیا تاکہ غزہ میں ممکنہ بھوک کے بحران کو روکا جا سکے اگر انسانی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس سے اسرائیلی فوج کا جاری آپریشن متاثر ہو سکتا ہے، اسی لیے محدود سطح پر امدادی خوراک داخل کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے،اسرائیلی حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ امدادی خوراک حماس کے ہاتھ نہ لگے، اس کے لیے خصوصی اقدا مات کیے جائیں گے۔

اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ میں مکمل ناکہ بندی نافذ کر رکھی تھی جس کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا، تاہم اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے کئی بار خبردار کیا کہ غزہ میں خوراک، صاف پانی، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔

جبکہ اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے (UNRWA) کے سربراہ فلپ لازارینی نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں UNRWA کے 300 سے زائد ملازمین شہید ہو چکے ہیں انہوں نے اس المناک حد کو "خونریز سنگ میل” قرار دیا ہے۔

فلپ لازارینی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر اہلکار اسرائیلی فوج کے حملوں میں اپنے بچوں اور خاندانوں کے ساتھ شہید ہوئے اور ان کی پوری کی پوری فیملیاں مٹا دی گئیں ملازمین اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے گئے، جن میں طبی عملہ اور اساتذہ شامل تھے جو اپنی کمیونٹیز کی خدمت کر رہے تھے،ان ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں، اگر ان جرائم پر خاموشی اختیار کی گئی تو مزید بے گناہوں کی جانیں جائیں گی، جو ذمہ دار ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

Shares: