جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے غیرقانونی طور پر نظربند اپنے چیئرمین محمد یاسین ملک اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جموں کی ٹاڈا عدالت میں 35 سال پرانے مقدمات کی حالیہ عدالتی سماعت کے دوران پرانے گواہوں کو بدلتے ہوئے بیانات کے ساتھ غیر منصفانہ طریقے سے دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ترجمان محمد رفیق ڈار کا کہنا ہے کہ عدالتی سماعت کے دوران مودی حکومت نے سی بی آئی کے ذریعے ایک بار پھر ایک پرانے گواہ کو سامنے لایا جس نے 1990ء میں اسی عدالت میں بیان دیا تھا کہ وہ کسی بھی ملزم کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ رفیق ڈار نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے اور اسے بھارت کے عدالتی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے کہ 35 سال کے بعد حکومت اور ایجنسیوں کے دبائو میں لا کر کس طرح پرانے گواہان سے اپنا بیان تبدیل کرنے اور یاسین ملک اور ان کے ساتھیوں کی شناخت کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بھارت کی موجودہ انتہاپسند حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کے مقبول ترین آزادی پسند سیاسی رہنماؤں کے خلاف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جنہیں حکومت اور اس کی ایجنسیاں جعلی ، من گھڑت اور سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات کے تحت جیلوں میں ڈال رہی ہیں۔ رفیق ڈار نے مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے گرفتاریوں اور عام لوگوں کو ہراساں کرنے کا نیا سلسلہ شروع کرنے کی مذمت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ قابض بھارتی حکام نے عام لوگوں کے خلاف اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اُنہوں نے عالمی برادری بالخصوص انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کریں اور بھارت کو مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بند کرنے پر مجبور کریں۔








