ڈاکٹر مینا نقوی ،یوم وفات 15 نومبر
ہندوستان کی معروف شاورہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ کا اصل نام منیر زہرہ اور تخلص میناؔ ہے ۔ وہ نگینہ ضلع بجنور، اتر پردیش میں سیّد التجا حسین کے یہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی دو بہنیں نصرت مہدی اور علینا عترت ہیں۔ آپ درس وتدریس کے مقدس فریضے سے وابستہ تھیں۔
مینا نقوی کی شاعری ،عصری ادب میں جن حوالوں سے پہچانی جاتی ہے ان میں ان کی سادگی اور زندگی کی مثبت قدروں کے احترام کو ا ولیت حاصل ہے۔یہ سچ ہے کہ ان کی شاعری کا خمیر بھی دیگر شعراء کی طرح رومانی جذبات و احساسات کی آمیزش سے تیار ہوا ہے مگر ان کی شعری کائنات میں زندگی کے مسائل و مصائب اور عصری فکر و شعور کا جذبہ بھی قابلِ ذکر ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقی ریاضت اور شعری تجربے نے ان کی شاعری کا کینوس وسیع کر دیا ہے۔ مینا نقوی کئی برسوں سے شاعری کر رہی تھیں اور اب تک ان کے نو ( ۹) شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں اور انہیں متعدد اعزازات و انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔
ان کی تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :
1-سائبان (اردو) 2-بابان…(اردو) 3-درد پت
جھڑ کا (ہندی) 4-کرچییاں درد کی (اردو) 5-کرچیاں درد کی( ہندی) 6-جاگتی آنکھیں (اردو) 7-دھوپ چھاؤں (.ہندی) 8- منزل 9 – آئینہ
سیدہ مینا نقوی کافی عرصے سے سرطان جیسے مہلک مرض سے نبرد آزما تھیں اور 15 نومبر 2020 کو انتقال کر گئیں
منتخب اشعار
یہ عورتوں میں طوائف تو ڈھونڈ لیتے ہیں
طوائفوں میں انہیں عورتیں نہیں ملتیں
دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا
ابر گہرا ہے آسمان میں کیا
یہ مت سمجھنا فقیر ہوں میں
انا کے حق میں کثیر ہوں میں
جب اسے دیکھا ذرا نزدیک سے
تب سمجھ پائے ہیں تھوڑا ٹھیک سے
چاند کیسے کسی تارے میں سما جائے گا
پھر بھی امید کو ضد ہے کہ وہ آ جائے گا
محبتوں میں وفا کا حساب دے گا کون
اندھیری شب کے لئے آفتاب دے گا کون
پھول مہکائے تھے میں نے شادمانی کے لیے
ہر نفس اب مر رہی ہوں زندگانی کے لیے
مزاج اپنے کہاں آج ہیں ٹھکانے پر
حضور آئے ہیں میرے غریب خانے پر
آساں ہر ایک ہو گئی مشکل مرے لئے
جس دن سے محترم ہوا قاتل مرے لئے
کبھی زیادہ کبھی کم رہا ہے آنکھوں میں
اک انتظار کا موسم رہا ہے آنکھوں میں
آنکھوں میں رنگ پیار کے بھرنے لگی ہوں میں
آئینہ سامنے ہے سنورنے لگی ہوں میں
تیز جب گردش حالات ہوا کرتی ہے
روشنی دن کی سیہ رات ہوا کرتی ہے
اس برس فصل بہاراں کی طرح واپس آ
تو مری جان ہے جاناں کی طرح واپس آ
حالات کے دریاؤں میں خطرے کے نشاں تک
چل پائیں گے کیا آپ مرے ساتھ وہاں تک
جب چاندنیاں گھر کی دہلیز پہ چلتی ہیں
آسیب زدہ روحیں سڑکوں پہ ٹہلتی ہیں
کس طرح چبھتے ہوئے خار سے خوشبو آئے
پھول ہوں لفظ تو اظہار سے خوشبو آئے
غم نہیں ہے چاہے جتنی تیرگی قائم رہے
مجھ پہ بس تیری نظر کی چاندنی قائم رہے
جب سے ترے لہجے میں تھکن بول رہی ہے
دل میں مرے سورج کی جلن بول رہی ہے
ڈاکٹر مینا نقوی