یہ بازار ہے جناب! یہاں صرف اشیاء ہی نہیں، ضمیر بھی بکتے ہیں۔ بولیاں لگتی ہیں، سودے طے پاتے ہیں، اور سچائی کا نرخ مقرر کیا جاتا ہے۔ دیانت داری کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، اصولوں کو مصلحت کے ترازوں میں تولا جاتا ہے، اور وفاداری کی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں کبھی سچائی کو وقار حاصل تھا، انصاف کو برتری حاصل تھی، اور اصولوں پر سودے بازی کرنے والے معتوب گردانے جاتے تھے۔ مگر آج! آج ہر چیز کی قیمت ہے—حتیٰ کہ انسانیت کی بھی۔

یہ ایک ایسا بازار ہے جہاں کردار پر قیمت چسپاں کی جاتی ہے، جہاں حقیقت کو جھوٹ کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے، اور جہاں ہر وہ شخص خسارے میں ہے جو اپنے ضمیر کو بیچنے سے انکار کر دے۔ وقت کے جبر کے سامنے سر جھکا دینا کامیابی کہلاتی ہے، اور اصولوں پر ڈٹ جانا حماقت۔ عدل کی کرسی پر وہی بیٹھتا ہے جو انصاف کو اپنے مفادات کے تابع کر لے، اور عزت کے تمغے اسے ملتے ہیں جو خودداری کے لباس کو اتار پھینکیں۔

یہ ضمیر فروش کون ہیں؟

یہ ہم سب ہیں، ہاں! ہم سب! کوئی خاموش رہ کر، کوئی ظلم سہہ کر، کوئی مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر، اور کوئی دنیاوی فائدے کی خاطر سچائی سے نظریں چرا کر۔ فرق بس اتنا ہے کہ کسی کا ضمیر سونے چاندی میں تولا جاتا ہے اور کسی کا محض چند کھوکھلے وعدوں میں۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ ہم نے سچائی کو خاموش کر دیا ہے؟ وہ جو حق پر ڈٹنے والے تھے، وہ بھی مصلحت کے قیدی بن چکے ہیں۔ وہ جو روشنی کے مینار تھے، آج وہی اندھیروں میں راستہ گم کر چکے ہیں۔ ہم سب کسی نہ کسی صورت میں اس گناہ میں شریک ہیں—یا تو اپنی بے عملی سے، یا پھر اپنی خاموشی سے۔

کیا یہ سکوت ہمیشہ رہے گا؟

یہ وقت جاگنے کا ہے! وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنی روحوں کو جھنجھوڑیں، اور اپنے ضمیروں کو آواز دیں۔ ہمیں وہ چراغ جلانے ہوں گے جو اندھیروں کو چیر کر روشنی کا پیام دیں، وہ مینار بننا ہوگا جو راہ گم کردہ مسافروں کے لیے دلیل بنے، اور وہ صدا بننا ہوگا جو باطل کے ایوانوں میں لرزش پیدا کر دے۔

حضرت علیؓ کا فرمان ہے: "سب سے بڑا فقیر وہ ہے جس کا ضمیر مر چکا ہو۔”

اگر ہم نے آج بھی اپنے ضمیر کو جگانے کی کوشش نہ کی، اگر ہم نے حق پر ڈٹنے کی جرأت نہ کی، تو یہ معاشرہ ایک ایسی لاش میں بدل جائے گا جس کی روح مر چکی ہوگی۔ آئیے! اس نیلام گھر میں اپنے ضمیر کو بکاؤ نہ ہونے دیں! اپنے اصولوں کو اس قدر مضبوط کر لیں کہ کوئی بھی طاقت ہمارے کردار کی قیمت لگانے کی جرأت نہ کر سکے۔ یہی اصل فلاح ہے، اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے زوال پذیر معاشرے کو پھر سے بامِ عروج تک لے جا سکتی ہے۔

Shares: