یوم آزادی اور قربانیاں ،تحریر : ارشد محمود

0
65

آزادی کا لفظ ذہن میں آتے ہی درد کی ٹیسیں بھی اٹھتی ہیں ۔ آزادی اپنے ساتھ ہجرت کے زخم بھی لاتی ہے ۔ آزادی بغیر تکالیف کے ممکن ہے اور نہ ہی اپنے اصل مفہوم میں آزاد ہونا۔ پاکستانی قوم اپنے یوم آزادی کو اس شان و شوکت سے مناتی ہے کہ پوری دنیا میں اس کی دھوم مچی ہوتی ہے ۔ پاکستانیوں کو اپنے اس دن کو منانا بھی اسی شان و شوکت سے چاہیے کہ غلامی سے آزادی تک کا سفر بڑا ہی خوف ناک اور اندوہ ناک بھی تھا ۔ خالی لٹتے لٹاتے ، کٹتے کٹاتے اور اپنوں کے لاشوں کو بغیر کفن دفن آہوں میں دفناتے خونی لکیر کو عبور کرنے کا نام آزادی تھا ۔ غلامی سے آزادی تک کا سفر آخری مغل بادشاہ سے لے کر جنگ آزادی ، تحریک خلافت و دیگر تحاریک سے ہوتا ہوا تقسیم برصغیر پر آکر رک سا گیا ۔ اس جگہ پر مسلمانوں کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ مسلمانوں نے برصغیر پر صدیوں حکومت کی تھی اور انگریز کے بعد وہ محکوم بن کر بھی اپنا ماضی نہیں بھول سکتے تھے ۔ اس وقت ہندوؤں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر اپنا آپ مضبوط کیا اور پھر جب ایسٹ انڈیا کمپنی و انگریز نے برصغیر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ہندوؤں نے سرتوڑ کوشش شروع کی کہ وہ پورے برصغیر پر قابض ہوجائیں۔ یوم آزادی کے روز ہمیں اس وقت کی مسلم قیادت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انھوں نے دنیا جہاں کی دشمنی مول لی ، خزانوں کو ٹھوکر ماری ، قیادتوں کے خواب چھوڑے اور پھر وہ کردکھایا جو کہ ناممکن حد تک مشکل تھا۔

قیام پاکستان کا خواب جس قدر طویل تھا اسی قدر پرخطر بھی تھا ۔ جب فیصلے کی امید دونوں طرف بندھ گئی تو خوف و ہراس بھی پھیل گیا ۔ وہ لوگ جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ہم ساے تھے ، ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے پیتے ، اٹھتے بیٹھتے اور غمی و خوشی میں شریک ہوتے تھے ۔ دشمن بن گئے ۔ یہ ظاہر کرتا تھا کہ مسلم قیادت نے بروقت اور صحیح فیصلہ کیا ہے ۔ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد شروع ہوا ۔ حالات بے قابو ہوے تو ہجرت کے فیصلے شروع ہوے ۔ ہندو بلوائیوں نے انسانیت کے نام پر کلنک کا ٹیکا لگا دیا۔ مسلم قافلوں پر حملے کرتے ، جوان بیٹیوں کو چھوڑ کر سب کو شہید کردیتے ۔ وہ جو بچپن میں ایک دوسرے کے گھروں میں کھیلے تھے وہی آج راکھی باندھنے والی مسلم بہن کو ہوس کا نشانہ بناکر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے نظر آ رہے تھے۔ قیام پاکستان جہاں شہداء کی مرہون منت ہے وہی پر پاک باز مسلم خواتین کی عزت و آبرو کا بھی مقروض ہے ۔

آج ہم سب پاکستان میں موجود ہیں کسی بھی قسم کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی بوجھ ۔ معاشرے پر نظر دوڑائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت دی جانے والی لاکھوں قربانیاں رائیگاں گئی ہیں۔  اس وقت ہندو مسلم جھگڑے تھے ، ہندو ہوس زدہ درندے بلوائیوں کی شکل میں قافلوں کے قافلے تہہ تیغ کردیتے تھے ۔ آج علاقوں میں ، گلیوں اور چوراہوں میں مسلم ہوس کے مارے لوگ پاکستانی بچیوں اور عورتوں کی عزتوں کے درپے ہیں۔ "پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الا اللہ ” کا نعرہ لگانے والے ملک میں صنف نازک کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے ۔ قوانین موجود ہیں ، عمل درآمد کون کرواے ؟ آئیے اس بار جشن آزادی کے موقع پر اپنے آپ سے عہد کریں کہ اپنی بساط کے مطابق پاکستان کو اسلامی تعلیمات کے زیر اثر بنانے کی کوشش کریں گے ۔

Leave a reply