28 مئی 1998ءایک ایسا دن تھاجب کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی واحد نظریاتی ریاست نے اپنے دفاع کو فولادی حصار فراہم کرتے ہوئے دنیا کفر کو یہ پیغام دیا کہ وہ نہ صرف اپنے جغرافیے کی حفاظت کرنا جانتی ہے بلکہ اپنی نظریاتی سرحدوں پر بھی کسی قسم کی سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔ یہی دن ”یومِ تکبیر“ کے طور پر جانا جاتا ہے، وہ دن جب پاکستان نے خود کو دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت کے طور پر منوایاجس کی وجہ سے پورے عالم اسلام بلکہ دنیا میں موجود ہر مسلمان کا سر فخر سے بلند اور پیشانی اپنے رب کے حضور سر بسجود ہوگئی۔
جب پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تو یہ سفر آسان نہ تھا۔ سائنس، ٹیکنالوجی، ماہرین، وسائل اور وقت، سب کچھ محدود تھا۔ لیکن پاکستانی قوم کا جذبہ ایمانی اور رب العزت پر توکل یقین اور بھروسہ لامحدود تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے مخلص اور باصلاحیت سائنسدانوں نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز اور دیگر اداروں میں شب و روز تحقیق جاری رہی۔ عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے دباﺅ ، دھمکیاں اور معاشی پابندیوں کی باتیں کی گئیں۔ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ سب رکاوٹیں اس وقت غیر موثر ہو گئیں جب پاکستان کے جذبے نے ان سب کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ ابتداہی سے جن مسلم ممالک نے پاکستان کے ساتھ مالی تعاون کیا ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب مملکت سعودی عرب کے فرمانروا جلالة الملک شاہ فیصل بن عبدالعزیز تھے ۔ وہ اسلام کے سچے خادم اور بہت ہی دور اندیش حکمران تھے ۔ وہ پاکستان سے بھی بے حد محبت کرتے تھے ۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان عسکری اعتبار سے مضبوط تر ہو ۔ یہی وجہ تھی کہ ملک فیصل بن عبدالعزیزنے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کےلئے مملکت کے خزانوں کے منہ کھول دیے ۔ اس طرح سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام تکمیل کو پہنچا ۔ پاکستان میں مختلف اوقات میں مختلف حکومتیں برسر اقتدار آتی رہیں ان میں باہم شدید قسم کے اختلافات بھی رہے لیکن تمام تر باہمی مخالفت کے باوجود ایک بات پر سب متفق رہیں کہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت اور طاقت سے لیس کرنا ہے ۔ بہر حال وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ 11مئی 1998ءکو بھارت نے ایک بار پھر پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو شدید متاثر کیا۔ بھارتی قیادت نے کھلے عام پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کو جنوبی ایشیا میں ”نیا سورج“ طلوع ہونے کے مترادف قرار دیا۔بھارت خود کو علاقے کا چوہدری اور پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست سمجھنے لگ گیا۔ہندو بنیا اپنے تئیں اس زعم کا شکار ہوگیا کہ اب پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہے ۔ جب بھارت ایٹمی دھماکے کرچکا تو اس کے بعد دنیا کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہو گئیں۔ عالمی طاقتیں متحرک ہو گئیں کہ پاکستان کو دھماکہ نہ کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ معاشی پابندیوں، قرضوں کی بندش اور سفارتی دباو جیسے تمام حربے آزمائے گئے۔ امریکہ، جاپان، اور یورپی ممالک نے وطن عزیز پاکستان کی قیادت بالخصوص میاں نواز شریف کو یہ باور کرایا کہ اگر اس نے دھماکہ کیا تو اس کے نتائج بھیانک ہوں گے اور پاکستان کو بدترین قسم کی معاشی اور سفارتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
ان حالات میں پاکستان کے لیے فیصلہ آسان نہ تھا۔ ایک طرف شدید عالمی دباو تھا تو دوسری طرف پوری قوم کا مطالبہ تھا کہ بھارت کو اس کے ایٹمی غرور کا جواب دیا جائے۔ عوام، افواج، اور دانشور طبقہ ایک آواز ہو چکا تھا۔ آخرکار غیرت مند، محب وطن، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مسلم ممالک بالخصوص مملکت سعودیہ عربیہ کی مشاورت سے مسلم امہ کے وسیع تر مفاد، قومی غیرت اور دفاعِ وطن کو فوقیت دیتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جس پر آج بھی قوم فخر کرتی ہے۔ 28 مئی 1998 ءکو بلوچستان کے ضلع چاغی میں دھات کے پہاڑوں نے لرز کر گواہی دی کہ پاکستان نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہے گا۔ پانچ ایٹمی دھماکوں نے نہ صرف بھارت کو مو¿ثر جواب دیا اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا بلکہ اسلامی دنیا میں ایک نئی امید پیدا کی۔اس مشکل ترین وقت میں مملکت سعودی عربیہ نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ مالی تعاون کیساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی شانہ بشانہ کھڑا ہوا ۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھا ۔ ایک طرف بھارت کی جارحیت تھی، دوسری طرف اندیشہ ہائے دور دراز تھے معاشی اور سفارتی پابندیوں کے خدشات تھے ۔ تب اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا دورہ کیا ۔اگرچہ اس وقت ملک فہد بن عبدالعزیز سعودی عرب کے فرمانروا تھے تاہم ان کی علالت کی وجہ سے امور مملکت ولیعہد ملک عبداللہ بن عبدالعزیز چلارہے تھے ۔ نواز شریف نے ملک فہد اور ولیعہدملک عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملاقات کی ۔سعودی فرمانروا ملک عبداللہ نے نواز شریف کو ہر قسم کے مالی اخلاقی اور سفارتی تعاون کا یقین دلایا
یہ وہ وقت تھا جب ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے نتیجے میں پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر اتنا شدید دباو¿ تھا کہ حکومت نے نجی بنکوں سے ڈالر نکلوانے پر پابندی لگا دی تھی۔ان حالات میں جب کوئی دوسرا ملک یا قرض دینے والا آئی ایم ایف جیسا ادارہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کی مالی مدد نہیں کر سکتا تھا، سعودی عرب پاکستان کی مدد کو آیا ۔ سعودی عرب نے اس وقت پاکستان کو تین ارب ڈالر سالانہ تیل دینا شروع کیا تھا۔تیل کی فراہمی کا یہ سلسلہ 1998 ءکے بعد بھی کئی برس تک جاری رہا ۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں کئی قسم کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیاں لگائی جاچکی تھیں اس وجہ سے سعودی عرب نے یہ ظاہر کیا کہ پاکستان کو تیل ’ادھار‘ دیا جارہا ہے لیکن دراصل یہ مفت تیل تھا جس کے پیسے کبھی بھی سعودی عرب نے پاکستان سے نہیں لئے۔ ایٹمی دھماکوں کے چند ہفتوں بعد ولیعہد ملک عبداللہ آٹھ ملکوں کے دورے پر روانہ ہوئے ۔آغاز واشنگٹن سے ہوا عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود پاکستان کو تیل کی فراہمی کے متعلق امریکی اخبار نیوسوں کے سوال پر سعودی رہنما کا جواب تھا پاکستان کےلئے زندگی اور موت کے اس مرحلے پر آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہم اسے تنہا چھوڑ دیں گے ۔واشنگٹن سے شروع ہونے والے اس عالمی دورے کا اختتام پاکستان پر ہوا تھا ۔ دورے کی اس ترتیب میں دنیا کےلئے پیغام تھا کہ ملک عبداللہ کے نزدیک پاکستان ایسے ہے جیسے اپنا گھر ہو ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو انھیں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا دورہ بھی کروایا گیا ۔ یہ بات معلوم ہے کہ کہوٹہ ایٹمی پلانٹ وہ حساس ترین جگہ ہے جہاں کوئی غیر متعلقہ شخص خصوصاََ غیر ملک پر بھی نہیں مارسکتا ۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب گئے تو ایوان شاہی میں ان کےلئے بیمثال استقبالیہ کا اہتمام تھا تب ولی عہد ملک عبداللہ نے ان کا ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے انھیں اپنا فل بردار قرار دیا شاہ فہد اور دیگر بھائی ان کے ہاف برادر تھے ۔ یہ تھا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں سعودی عرب کا کردار جس پر آج ہر پاکستان کو فخر ہے ۔ حقیقت یہ کہ اگر سعودی عرب کا تعاون شامل حال نہ ہوتا تو پاکستان میں ایٹمی پلانٹ کی تنصیب ہوتی نہ ہی پاکستان کےلئے ایٹمی دھماکے کرنا ممکن ہوتا اور نہ آج پاکستان کےلئے اپنا دفاع کرنا ممکن ہوتا ۔

یوم تکبیر۔۔۔ تجدید عہد کا دن ،تحریرڈاکٹر حافظ مسعودعبدالرشید اظہر
Shares:







