یوم وفات عبدالحلیم شرر
لکھنؤ
وفات:1 دسمبر 1926ء
لکھنؤ
عبدالحلیم شرر (04ستمبر 1860ء تا 01 دسمبر 1926ء) برصغیر کے ایک انتہائی معروف اردو ادیب اور صحافی تھے۔ ناول نگاری میں انھوں نے خصوصی شہرت حاصل کی۔ بہت سے اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے جن میں سے بیشتر انھوں نے خود جاری کیے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ، 2 جمادی الثانی 1276ھ (بمطابق 04 ستمبر 1860ء) میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم تفضل حیسن، واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے باقی خاندان کی طرح شرر بھی 9 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ کلکتہ چلے گئے اور والدین کے ساتھ مٹیا برج رہنے لگے۔
کلکتہ میں رہائش کے دوران اپنے والد کے علاوہ سید حیدر علی، مولوی محمد حیدر، مرزا محمد علی صاحب مجتہد اور حکیم محمد مسیح سے عربی، فارسی، منطق اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ اسی زمانے میں انگریزی بھی پڑھی لیکن اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔
1875ء میں اپنے نانا مولوی قمر الدین کی سبکدوشی کے بعد ان کی جگہ نواب واجد علی شاہ کے ہاں ملازم ہوئے۔ دو سال کے بعد یہ ملازمت چھوڑ کر 1877ء میں کلکتہ سے لکھنؤ چلے آئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہیں رہائش کے دوران مولوی عبد الحئی کے پاس عربی کی تعلیم مکمل کی۔ 1879ء میں ماموں کی بیٹی سے شادی کے ایک سال بعد دہلی چلے گئے جہاں شمس العلماء میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے حدیث کی تعلیم میں سند لی۔ یہیں قیام کے دوران نجی طور پر انگریزی میں بھی خاصی مہارت حاصل کر لی۔
صحافتی زندگی کا آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلکتہ میں قیام کے دوران شرر نے لکھنؤ کے ایک اخبار اودھ اخبار کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا۔ دہلی سے لکھنؤ واپس آئے تو منشی احمد علی کسمنڈوی نے اخبارات میں مضامین لکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ ان مضامین کی مقبولیت کے نتیجے میں 1880ء میں لکھنؤ واپس آنے پر منشی نولکشور نے شرر کو اودھ پنج کے ادارتی عملے میں شامل کر لیا۔ ان کے مضامین کو خوب شہرت ملی۔ اس اخبار میں 1884ء تک کام کیا۔
اودھ اخبار کی ملازمت کے دوران شرر نے اپنے ایک دوست مولوی عبد الباسط کے نام سے محشر نامی ہفت روزہ رسالہ جاری کیا۔ یہ رسالہ شرر کے مضامین کی وجہ سے بے انتہا مقبول ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس رسالے کی شہرت کی وجہ سے ان کو حیدرآباد میں اودھ اخبار کا نمائندۂ خصوصی بنا کر بھیج دیا گیا۔ حیدرآباد میں چھ ماہ قیام کیا۔ جب انہیں اخبار کی طرف سے لکھنؤ واپس آنے اجازت نہ ملی تو اودھ پنج سے استعفی دے دیا اور واپس لکھنؤ آ گئے۔
ادبی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔
شرر نے اپنے اولین ناول دلچسپ کا پہلا حصہ 1885ء میں اور دوسرا حصہ 1886ء میں شائع کیا۔ اور یوں ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز ہو گیا۔ انہوں نے 1886ء ہی میں بنکم چندر چٹر جی کے ناول درگرش نندنی کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔
1887ء میں اپنا مشہور رسالہ دلگداز جاری کیا جو 1926ء تک چھپتا رہا۔ دلگداز میں مولانا نے بیش بہا مضامین لکھے جو بعد میں کئی جلدوں میں (مضامین شرر) کے نام سے شائع کیا۔ ان رسائل میں انہوں نے آزاد نظم اور معراء نظم کے تجربات کیے اور یوں اردو شاعری میں نظم کے حوالے سے اہم سنگ میل کی صورت اختیار کی۔
ملک عبد العزیز ورجنا ان کا پہلا تاریخی ناول تھا جو 1888ء میں قسط وارشائع ہوا۔ اس کے بعد 1889ء میں حسن انجلینا اور 1890ء میں منصور موہنا نامی ناول شائع ہوئے۔ 1890ء ہی میں شرر نے اسلامی شخصیات کے بارے میں مہذب نامی رسالہ جاری کیا جو مالی مشکلات کی وجہ سے ایک سال کے اندر ہی بند ہو گیا۔ بعد ازاں، 1891ء میں، قیس و لبنٰی نامی ناول چھپا۔
دورۂ انگلستان
1891ء میں ہی شرر کو نواب وقار الملک کے پاس حیدرآباد میں ملازمت مل گئی۔ 1892ء میں نواب نے انہیں اپنے بیٹے کا اتالیق بنا کر انگلستان بھیج دیا جہاں وہ 1896ء تک مقیم رہے۔ روانگی سے قبل شرر نے تین ناول، دلکش، زید و حلاوہ اور یوسف و نجمہ لکھنے شروع کیے جنہیں ان کی غیر موجودگی میں کسی اور نے مکمل کیا۔ مذکور ناولوں میں سے آخری دو کو بعد میں شرر نے خود بھی مکمل کیا لیکن زید و حلاوہ کا نام تبدیل کر کے فلورا فلورنڈا رکھ دیا۔
فردوس بریں
۔۔۔۔۔۔۔۔
1896ء میں انگلستان سے واپس آ کر دوبارہ حیدرآباد میں مقیم ہو گئے اور اس مرتبہ یہیں سے دل گداز کو جاری کیا۔ 1899ء تک حیدرآباد میں قیام رہا اور اسی دوران اپنے ناول ایام عرب کا پہلا حصہ شائع کیا۔ انہی برسوں میں شرر نے کچھ تاریخی تحقیق کا کام کیا اور اس کو سکینہ بنت حسین میں شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے بعد حیدرآباد کے ایک حلقے میں شرر کی شدید مخالفت شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں 1899ء میں انہیں حیدرآباد چھوڑنا پڑا۔
لکھنؤ واپس آ کر دل گداز کو یہاں سے دوبارہ جاری کیا۔ 1900ء میں پردہ عصمت کے نام سے ایک پندرہ روزہ رسالہ نکالا۔ لکھنؤ میں یہ قیام 1901ء تک رہا اور یہی وہ دور تھا جس میں شرر نے اپنا شہرۂ آفاق ناول فردوس بریں تحریر کیا۔ یہ ناول 1899ء میں شائع ہوا۔
اس دور کی دیگر تصانیف یہ ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن بن صباح (تاریخی رسالہ)
ایام عرب، (حصہ دوم) (1900ء)
مقدس نازنین (1900ء)
ڈاکو کی دلہن (ایک انگریزی ناول کا ترجمہ) (1900ء)
بدر النساء کی مصیبت (1901ء)
گو 1899ء میں شرر واپس لکھنؤ آ گئے تھے لیکن ان کی حیدرآباد والی ملازمت بدستور جاری رہی اور نواب وقار الملک اور مولوی عزیز مرزا کی وجہ سے انہیں تنخواہ مسلسل لکھنؤ پہنچتی رہی۔
1901ء میں انہیں واپس حیدرآباد بلا لیا گیا جس کی وجہ سے انہیں دل گداز اور پردہ عصمت بند کرنے پڑے۔ لیکن ان کے حیدر آبد پہنچتے ہی نواب وقار الملک ملازمت سے علاحدہ ہو گئے اور پھر ان کا انتقال ہو گئے جبکہ مولوی عزیز مرزا کا تبادلہ اضلاع میں ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1903ء میں ملازمت سے برطرف ہو گئے اور واپس لکھنؤ آ گئے۔
1904ء میں دل گداز کو ایک مرتبہ پھر جاری کیا۔ 1907ء تک اپنے قیام میں شرر نے جو کتابیں تحریر کیں ان کی فہرست ذیل میں ہے:
شوقین ملکہ
یوسف و نجمہ
سوانح حیات حضرت جنید بغدادی
تاریخ سندھ
سوانح حیات حضرت ابوبکر شبلی
1907ء میں شرر کو حیدرآباد میں محکمۂ تعلیم کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر متعین کر دیا گیا۔ 1908ء میں وہیں سے دل گداز کو پھر جاری کیا۔ لیکن نظام حیدر آباد کی کسی بات پر ناراضی کی وجہ سے حیدرآباد کو پھر چھوڑنا پڑا۔ یہاں قیام کے دوران جو کتب تحریر کیں وہ یہ ہیں:
آغا صادق کی شادی (معاشرتی ناول)
ماہ ملک (تاریخی ناول)
آخری دور[ترمیم]
لکھنؤ واپس آ کر 1910ء میں دل گداز کو پھر یہاں سے جاری کیا اور اس کی اشاعت تمام عمر جاری رکھی۔ 1910ء سے 1926ء ان کی ادبی زندگی کا اہم ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ اس دوران انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام مسلسل جاری رکھا اور بہت سی کتب شائع کیں جن کی فہرست بلحاظ سال یہ ہے:
1910ء: فلپانا (تاریخی ناول)
1911ء: غیب دان دلہن (ناول)
1912ء: زوال بغداد (تاریخی ناول)۔ تاریخ عصر قدیم (مکمل)
1913ء: رومۃ الکبری (تاریخی ناول)۔ حسن کا ڈاکو (پہلا حصہ)
1914ء: حسن کا ڈاکو (دوسرا حصہ)۔ اسرار دربار رام پور (دو حصے)
1915ء: خوفناک محبت (ناول)۔ الفانسو (ناول)
1916ء: فاتح و مفتوح (ناول)
1917ء: بابک خرمی (ناول – حصہ اول)۔ جویائے حق (ناول – پہلا حصہ)۔ سوانح قرۃ العین۔ تاریخ عزیز مصر۔ تاریخ مسیح و مسیحیت
1918ء: بابک خرمی (ناول – حصہ دوم)۔ تاریخ عرب قبل اسلام
1919ء: جویائے حق (ناول – دوسرا حصہ)۔ لعبت چین (ناول)۔ تاریخ ارض مقدس، سوانح خاتم المرسلین، صقلیہ میں اسلامی تاریخ
1920ء: عزیزۂ مصر (ناول)۔ اسیر بابل (ناول)
1921ء: جویائے حق (ناول – تیسرا حصہ)
1923ء: طاہرہ (ناول)
1925ء: مینا بازار
1926ء: شہید وفا، میوۂ تلخ اور نیکی کا پھل (ڈرامے)
ادبی اعداد و شمار
۔۔۔۔۔۔۔۔
شرر کی چند تصانیف ایسی بھی ہیں جن کی تاریخ اشاعت کے بارے میں یقین سے نہییں کہا جا سکتا۔ اور اسی طرح ان کی تصانیف کی کل تعداد کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ شرر کی تصانیف کی اصل تعداد کے بارے میں مختلف محققین میں اختلاف پایا جا تا ہے۔ مرزا محمد عسکری نے ان کی تصانیف کے جو اعداد و شمار تحریر کیے ہیں وہ یہ ہیں:
اخبارات و رسائل
۔۔۔۔۔۔۔۔
محشر (ہفتہ وار)، دل گداز (ماہ وار)، مہذب (ہفتہ وار)، پردۂ عصمت (پندرہ روزہ)، اتحاد (پندرہ روزہ)، العرفان (ماہ وار)، دل افروز (ماہ وار)، ظریف (ہفتہ وار)، مؤرخ (ماہ وار)۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔
موضوع:تعداد
سوانح عمریاں:21
تاریخی ناول:28
دوسرے ناول:14
تاریخ:15
نظم و ڈراما:6
متفرق:18
کل تعداد:102
مجموعات مضامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرر کے مضامین کے مجموعات آٹھ جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں جن کی تفصیل ذیل کے جدول میں ہے:
عدد جلد تفصیل
جلد اول حصہ اول: شاعرانہ اور عاشقانہ مضامین
حصہ دوم: شاعرانہ اور عاشقانہ مضامین
حصہ سوم: آغاز و اختتام سال کے مضامین
(یہ دل گداز کے اداریے ہیں)
جلد دوم حصہ اول: تاریخی و جغرافیائی مضامین
حصہ دوم: مختلف ملکوں، شہروں اور قوموں کے حالات اور تذکرے
حصہ سوم: ہندوستان میں مشرقی تمدن کا آخری نمونہ
جلد سوم حصہ اول: دنیا کے مختلف مملک کی مشہور عورتوں کا تذکرہ
حصہ دوم: دنیا کے مختلف مملک کی مشہور عورتوں کا تذکرہ
حصہ سوم: دنیا کے مشہور مردوں کے حالات
جلد چہارم ادبی اور تحقیقی مضامین
جلد پنجم اصلاحی مضامین
جلد ششم تاریخی واقعات پر خیال آرائی
جلد ہفتم نظم و ڈراما
جلد ہشتم مقالات شرر
شرر کی تصانیف بے شمار ہیں۔ ان کے ناولوں اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تاریخ اور خصوصاً اسلامی تاریخ کا اچھا مطالعہ کیا تھا۔ اور پھر تاریخی ناول لکھے۔ مشہور ناول ملک العزیز ورجینا، منصورموہنا، ایام عرب، فلورافلورنڈا، فتح اندلس اور فردوس بریں ہیں۔
شرر نے 01 دسمبر 1926ء میں لکھنؤ میں وفات پائی ۔