زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا، یوم وفات منیر نیازی
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
منیر نیازی
پیدائش:09اپریل 1928ء
ہوشیار پور، ہندوستان
وفات:26دسمبر 2006ء
نام محمد منیر خاں قبیلہ نیازی پٹھان اور تخلص منیر ہے۔ 09اپریل 1928ء کو خان پور ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۷ء میں بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔مختلف اخبارات اور جرائد سے وابستہ رہے۔ فلمی نغمہ نگاری کی۔غزل ان کی بنیادی شناخت ہے۔پابند اور آزاد نظمیں بھی کافی تعداد میں لکھی ہیں۔ نثری نظمیں بھی لکھتے تھے۔پنجابی کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔وہ اردو اور پنجابی کے ۳۰؍ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ اردو شاعری کے چند مجموعوں کے نام یہ ہیں : ’تیز ہوا اور تنہا پھول‘،’جنگل میں دھنک‘، ’دشمنوں کے درمیان شام‘، ’ماہ منیر‘، ’اس بے وفاکا شہر‘،’چھ رنگین دروازے‘۔ان کو یکجا کرکے ’’کلیات منیر‘، ’غزلیات منیر‘، اور ’نظم منیر‘، چھپ گئی ہے۔26؍دسمبر2006ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ دیا گیا۔ انھیں حسن کارکردگی ایوارڈ کے علاوہ دومرتبہ ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:221
اشعار
۔۔۔۔۔
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن
وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیرؔ
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
میں تو منیرؔ آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا
کوئی تو ہے منیرؔ جسے فکر ہے مری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا
کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو
منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو
ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
اچھی مثال بنتیں ظاہر اگر وہ ہوتیں
ان نیکیوں کو ہم تو دریا میں ڈال آئے
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی
میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں
مزا تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
منیرؔ اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجر میں بیمار ہونا
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
ہے منیرؔ تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی
کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی
زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کی تہہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو
مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے
جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
کیوں منیرؔ اپنی تباہی کا یہ کیسا شکوہ
جتنا تقدیر میں لکھا ہے ادا ہوتا ہے
دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف
یاد پیچھے کھینچتی ہے آس آگے کی طرف
گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے
چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی
دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
کتنے یار ہیں پھر بھی منیرؔ اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں درد دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
لیے پھرا جو مجھے در بہ در زمانے میں
خیال تجھ کو دل بے قرار کس کا تھا
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو
رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا
اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا
ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
غیر سے نفعت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو
ہم بھی منیرؔ اب دنیا داری کر کے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں
یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجر یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے
ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں
اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک ہیں اب ساری ذاتیں ایک سی
وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا
ریشمی ملبوس کی خوشبو سے جادو کر گیا
مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں
رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی
رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
شاید کوئی دیکھنے والا ہو جائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہئے
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
تو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکس دیوار کے بدلتے ہی
ایک دشت لا مکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں
یہ میرے گرد تماشا ہے آنکھ کھلنے تک
میں خواب میں تو ہوں لیکن خیال بھی ہے مجھے
چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیرؔ
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا
اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی
دیکھے ہوئے سے لگتے ہیں رستے مکاں مکیں
جس شہر میں بھٹک کے جدھر جائے آدمی
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لا مکانی میں بہت
یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیرؔ
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں
ہے منیرؔ حیرت مستقل
میں کھڑا ہوں ایسے مقام پر
کھڑا ہوں زیر فلک گنبد صدا میں منیرؔ
کہ جیسے ہاتھ اٹھا ہو کوئی دعا کے لیے
تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیرؔ
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی
بنایا سانپ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
مکان زر لب گویا حد سپہر و زمیں
دکھائی دیتا ہے سب کچھ یہاں خدا کے سوا
کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت
ہوں مکاں میں بند جیسے امتحاں میں آدمی
سختیٔ دیوار و در ہے جھیلتا جاتا ہوں میں
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا