یوم تکبیر پر سفر اور نواز شریف کا عوامی خطاب، تجزیہ : شہزاد قریشی

0
97
qureshi

گذشتہ دن اپنے دیرینہ و مخلص دوست وسینیٹر اور رہنما پروفیسر عرفان صدیقی کی صحبت جمیلہ میں اسلام آباد سے لاہور یوم تکبیر کی مرکزی تقریب میں شرکت کے لئے سفر کرنے کا شرف حاصل ہو ا اور سینیٹر ناصر بٹ بھی ہمارے ہم رکاب تھے ہم خیال ہم عمر اور مہم ہمدم دوستوں کا اکٹھا سفر اور ایک ہی منزل اور ایک ہی لیڈر و عظیم لیڈر سے ملاقات کے اشتیاق نے ہمارے سفر کو انتھک اور خوشگوار بنا دیاجونہی ہماری گاڑی اسلام آباد سے لاہور کے لئے موٹر وے پر پہنچی تو کون محب وطن اور ترقی پسند ہے جس کے دل سے میاں نواز شریف کے جذبہ دل اور غنچہء شوق کی خوشبو کا اعتراف نہ اُبلتا ہوسینیٹر پروفیسر عرفان صدیقی ، سینیٹر ناصر بٹ اور میری اپنی گفتگو میں جو تجزیہ کرنے لگے کہ اگر میاں نواز شریف پشاور اسلام آباد لاہور فیصل آباد ، لواری ٹنل اور دیگر موٹر ویز نہ بناتے تو آج کا پاکستان کیسا ہوتاشیر شاہ سور ی دور کا گرینڈ ٹرنک روڈ کوہستان برہان بٹالہ پاک وطن کی وہ بسیں ہوتیں جوراولپنڈی سے فیصل آباد کا سفر 14 گھنٹے میں کرتی تھیں اور جب مسافر ان سے اترتے تھے تو انہیں اپنے گھر والے بھی نہ پہچان سکتے تھے تاجر کئی دن تک اپنے ساز وسامان کے پہنچنے کا انتظار کرتے رہتے تھے اور آئے دن گاڑیوں کے خطرناک حادثات کی خبریں اخبارات کے پہلے صفحات کی زینت بنتی تھیں اور سوال یہ بھی آیا کہ اگر نواز شریف موٹر وے نہ بناتے تو کوئی اور بناتا؟ جی بالکل نہیں کیونکہ ان کے ہم عصر ایک اور وزیرا عظم اس پر تنقید کرکے موٹر وے کی چوڑائی کم کر گئی تھیں جس کا پچھتاوا آج بھی قوم کو ہےکیا آج ہم اتنے طویل موٹر ویز بنا سکتے ہیں ؟ جی بالکل نہیں کیا آج ہم میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبے شروع کر سکتے ہیں جی بالکل نہیں ہماری معاشی حالت ابتر ہو چکی ہے
سینیٹر پروفیسر عرفان صدیقی نے نکتہ اٹھایا اگر میاں نواز شریف سی پیک کی تکمیل کر چکے ہوتے اور کراچی لاہورا سلام آباد تاکاشغر دو رویہ ریل ٹریک بن کر چالو ہو چکا ہوتا تو پھر پاکستان کہاں کھڑا ہوتاہم سب کا جواب تھا کہ پاکستان ایشین ٹائیگر بن چکا ہوتادنیا کے بڑ ےبڑے برانڈراپنی مصنوعات کے کارخانے پاکستان میں لگاتے اور اپنی مصنوعات کی ترسیل دوسرے دور دراز ممالک میں کررہے ہوتےبیرون ملک سے پاکستانی لیبر واپس آکر اپنے دیس میں روزی کما رہی ہوتی پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ یوتھ ڈنکیاں لگاکر سات سمندر پار ڈوب نہ رہی ہوتی اور پاکستان کا برین ڈ رین نہ ہوتالاہور پہنچ کر حسب معمول سینیٹر پرویز رشید کی مہمانداری نصیب ہوئی تو ان کے گرد میاں نواز شریف کے مخلص دوستوں کا ہجوم دیکھ کر دل بے ساختہ کہہ اٹھابقول اقبال و فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردخلیق
میاں نواز شریف نے یوم تکبیر کے موقع پر اپنے خطاب میں عوام کے دل موہ لئے اور یہ خطاب بلاشبہ ایک تاریخی خطاب ہے جس میں انہوں نے سات سال کے عرصہ میں جلا وطنی اور اقتدار سے زبردستی علیحدگی صادر فرمانے والے ٹولے کی نشاندہی بھی کی اور اس سے پاکستان کے ترقی کے سفر میں ناقابل تلافی رخنہ اندیزی کاتذکرہ کیاانہوں نے نشاندہی کی کہ کس طرح پاکستان کو سی پیک کی منزل سے گمراہ کرنے کے لیے انہیں لندن پلان اور ا س وقت کی عدلیہ کی ملی بھگت کا نشانہ بنایا گیا اور ایک نااہل قیادت کو پاکستان کی تقدیر سے کھیلنے کا کھلا موقع فراہم کیا گیا
میاں نواز شریف نے موٹر ویز سے لے کر ایٹمی دھماکوں تک صنعتی انقلاب سے سی پیک ا ور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے تک جتنے بھی اقدامات کیے کا ذکر کیا ان کارناموں کوفیض احمد فیض کے ایک قطعہ میں تخلیق کیا جا سکتا ہے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اورنکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب میں ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

Leave a reply