میں جس فلیٹ یا اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہوں ( کرائے پر ) اسکی قیمت کوئی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے ۔ مجھے یہ فلیٹ پسند بھی ہے اور خواہش ہے ایسا ہی کبھی پیسے ہوئے تو خرید بھی لوں ۔ میں ہی کیا ہم سب میں کتنے ہی لوگ ہیں جو ایسے ہی ایک اچھے مکان یا فیلٹ کا خواب دیکھتے ہیں ۔ آخر کو انسان کے پاس ایک اپنا گھر تو ہو کہ کل کلاں کو کچھ ہوگیا تو فیملی کرائے کے مکانوں میں دھکے نہ کھاتی پھرے روز روز مالک مکان سے جھک جھک نہ ہو۔ کیوں کے کرائے پر اچھے مکان کے ملنے سے بھی زیادہ اچھا مالک مکان کا ملنا ایک بڑی نعمت ہے ۔
پاکستان کی پینتالیس فیصد آبادی تو ایک سو پچیس فیصد روز پر زندگی گزار رہی ہے یعنی کہ ساڑھے بیس کروڑ میں سے آٹھ کروڑ لوگ تو سیدھے سیدھے کسی اچھے مکان کے خریدنے کی دوڑ سے ہی باہر نکل جاتے ہیں اور باقی کے چار چھ کروڑ بھی بس ابا یا دادا کے اچھے وقتوں کی زمینوں کو بیچ کر یا آبائی گھروں میں ہی پورشن بنا بنا کر اپنے لئیے چھوٹے چھوٹے آشیانے بنا رہے ہیں ۔ سالوں گھر کو رنگ روغن اور مرمت کرانے کے پیسے ہی نہیں نکل پاتے ۔ پچیس تیس ہزار کا کام آجائے تو بھائی بھائی میں جھگڑا ہوجاتا ہے کہ کون کام کرائے گا اور کون اس ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ لے گا ۔ میں نے بجلی کے بلوں کے پیسے تقسیم ہوتے وقت پنکھوں اور اے سی تک کے کم زیادہ استعمال پر بحث مباحثہ ہوتے دیکھا یے ۔ افسوس تو یہ کہ ایک طرف تو ہمارے ملک کے تیرہ چودہ کروڑ عوام سو سو دو دو سو روپے کا حساب رکھ کر چل رہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب ہمارے حکمران اور ہمارے افسران اس غریب اور محروم قوم کا پیسہ اس بے دردی سے لٹاتے رہیں کہ تفصیلات سامنے آنے پر خون کھول اٹھتا ہے ۔
اب یہی دیکھئیے کہ کپتان نے اپنے امریکہ دورے کے دوران صرف فضائی سفر کے اخراجات کی مد میں ہی گیارہ سے بارہ کروڑ روپے بچائے ہیں ۔ ظاہر ہے ہمارے دانشوڑوں کی نظر میں یہ کوئی بڑی رقم نہیں ۔ لیکن ہم جیسے مڈل کلاسیوں کے لئیے یہ بہت بڑی رقم ہے ۔ ہم میں سے کتنوں نے ہی کبھی خواب میں بھی دس بارہ کروڑ اپنے بینک اکاونٹ میں جمع ہونے کا سوچا بھی نہیں کہ ہمیشہ ہی اخراجات اور آمدنی کا مقابلہ ہی چلتا چلا آرہا ہے ۔ لاکھوں لوگوں کا اکاونٹ کبھی سکس فگرز میں جا ہی نہیں پاتا ۔ ایک ڈیڑھ کروڑ کا مکان بنانا ایک پوری زندگی کھا جاتا ہے وہ بھی کتنی ہی خواہشوں اور کتنی ہی حسرتوں کا گلہ گھونٹ کر اور کتنی ہی جگہ اپنی عزت نفس خود داری اور عزت و احترام کو گروی رکھ کر ۔
اب جب ہم جیسے ٹٹ پونجئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران جب امریکہ جاتے تھے تو انکے لئیے پورے کا پورا long-range, wide-body , twin-engine, 300-seater jet airliner Boing-777 فکس کر دیا جاتا تھا تو خون کھول اٹھتا ہے کہ اس طرح سے تو کوئی دشمن کے پیسے کو بھی نہیں خرچ کرتا کہ حضور اب PIA کا یہ پورا بوئنگ 777 آپکے ڈسپوزل پر اور اسکے ساتھ ایک جہاز اسٹینڈ بائی پر تاکہ اس کو کچھ جائے تو دوسرا جہاز سرکار کے لئیے فوری تیار ہو ۔ یعنی مرے کو مارے شاہ مدار ۔ مرتی ہوئی PIA کے دو جہازوں کے نکالنے سے پی آئی اے کا سارا ٹائم ٹیبل درہم برہم ہوتا ہو تو ہوجائے حکمرانوں کی نقشہ بازیوں اور شاہ خرچیوں پر کمی نہ ہو ۔ پھر جہاز میں سے سیٹیں نکال کر کر بیڈ روم ، پریس روم، اور دیگر لاونجز بنانے کی رنگ بازیاں الگ جیسے چین جاپان جیسے امیر ملکوں کے حکمران ہوں ۔
پھر یہی نہیں کہ صرف جہاز کا خرچہ ہی ایک چونچلا ہوتا یہاں تو پی آئی اے کے لئیے ہمارے مغل شہنشاہوں کے لئیے انکی پسند کے کھانے اور ناشتے بنانا بھی ایک درد سر ہوا کرتا تھا کہ نجانے کب سرکار کا دل لسی کے لئیے مچل جائے یا کب بھنڈی کی فرمائش آجائے ۔ پتہ نہیں یہ لوگ پاکستان کے مسائل کا حل ڈھونڈنے جاتے تھے یا پکنک منانے جو پکوانوں سے لیکر سونے جاگنے کے آرام کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا ۔ اس پر بھی دل مان جاتا اگر ان دوروں کا کوئی فائدہ بھی ہوتا مگر یہاں تو غیر ملکی حکمرانوں کے سامنے فدویانہ انداز میں گردنیں جھکانے ، پرچیاں ہاتھ میں تھامنے اور دنیا بھر سے الزامات کی پوٹلی اٹھا کر واپس آنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا تھا ۔
ظاہر ہے اس حال میں دنیا کا کونسا ملک آپکو سیریس لے گا جارہے ہیں دنیا کو پاکستان کی مالی مشکلات سے نکالنے میں مدد لینے اور انویسٹمینٹ لانے اور حال یہ ہو مرسیڈیز اور کیڈیلک گاڑیوں کے قافلوں کے قافلے جھرمٹ میں ہوں ۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں پوری پوری بارات لیکر ٹہر رہے ہوں اور دنیا سے کہہ رہے ہوں کہ پیچھے گھر میں بچوں کو پڑھانے کے لئیے اور گھر چلانے کے لئیے پیسے نہیں ہیں ۔ ملک اور قوم قرضوں کے انبار میں دب رہی ہو اور حکمران چالیس پینتالیس لاکھ فی گھنٹہ کے حساب سے بوئنگ 777 سے آنا اور جانا کریں اور یوں ان حکمرانوں کے آنے اور جانے کے 28 گھنٹوں کی مسافت کی قیمت قوم کو گیارہ سے بارہ کروڑ میں پڑے ۔ کسی کی پوری عمر گذر جاتی ہے ایک کروڑ نہیں کماتا اور کسی کے چند گھنٹوں کے سفر کا خرچہ ہمارے جیسے کئی مڈل کلاسیوں کی پوری زندگی کی کمائی سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے ۔
حالانکہ ہیڈز آف اسٹیٹ کے دوروں لئیے چھوٹے طیارے رکھے گئے ہیں پی آئی اے کے فلیٹ میں 2 عدد us-made,12-seater Gulfstrean Jet موجود ہیں جنہیں سربراہان مملکت کے لئیے ہی رکھا گیا ہے لیکن پھر بھی ہمارے حکمرانوں کا اپنے پورے خاندانوں سے لیکر مالشیوں تک کو پورے پورے بوئنگ بھر بھر کر یورپ اور امریکہ جانا اور بدھوں کی طرح لوٹ کر آنا غصہ دلا دیتا ہے ۔ اور یہ سوچ کر مزید غصہ آتا ہے سابقہ حکمرانوں کے ساتھ جہاز غول در غول جانے والے صحافیوں کو بھی یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ میاں صاحب سے کبھی پوچھ ہی لیتے یہ قوم کے پیسوں سے نانا جی فاتحہ کیوں پڑھائی جارہی ہے ۔ ہم تو اتنا ہی کہتے ہیں کہ دنیا کو جتنا بھی چکر دے دو جب اوپر جاوگے تو تم کو تو اللہ پوچھے گا ۔