مفتی تقی عثمانی صاحب نے یو ٹیوب کی مونیٹائزیشن کے ناجائز ہونے کے حوالے سے ایک فتوی دیا ہے جو سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اس موضوع پر کافی عرصہ پہلے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جو بنیادی طور برادر مغیرہ لقمان کے ساتھ ایک ٹاک شو ہے۔ میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ مونیٹائزیشن سے بچنا چاہیے اگرچہ میں اب عام طور جدید مسائل میں حلال اور حرام کے الفاظ احتیاط کے پیش نظر استعمال نہیں کرتا ہوں کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ بس اتنا کہہ دیتا ہوں کہ یہ مناسب نہیں لگتا، یا یہ درست نہیں ہے، یا یہ جائز نہیں معلوم ہو رہا، یا بہتر ہے کہ یہ نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔ ویڈیو کا لنک پہلے کمنٹ میں موجود ہے۔
دوسرا اس مسئلے کو دیکھنے کا پہلو صرف حلال حرام کا نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ انڈین موٹیویشنل اسپیکر سندیپ کا یو ٹیوب چینل 26 ملین سبسکرائبرز کے ساتھ مونیٹائز نہیں ہے حالانکہ حلال حرام اس کا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ وہ تو ہندو ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ میری بات کے درمیان ایڈ چل جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ایڈ زیادہ اہم ہو گیا اور میری بات پیچھے رہ گئی۔ میں اپنی بات کی قدر کم نہیں کرنا چاہتا۔ یہی حال بہت سے اور بھی غیر مسلم مشاہیر کا ہے کہ انہوں نے چینل اسی بنیاد پر مونیٹائز نہیں کروایا ہوا۔
اگرچہ اب یو ٹیوب نے کانٹینٹ کریئیٹرز سے معاہدہ بدل دیا ہے اور نئے معاہدے کے مطابق وہ آپ کے چینل پر ایڈ چلا سکتا ہے لیکن وہ چلاتا نہیں ہے۔اچھے چینل یعنی جس پر سبسکرائبر زیادہ ہو، تو اس پر وہ ہزار میں سے ایک کو ایڈ دکھاتا ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں البتہ جس کا چینل نیا ہے تو اس پر زیادہ ایڈز نظر آ سکتے ہیں بھلے وہ مونیٹائز نہ بھی ہو۔ یہ یو ٹیوب کی نئی پالیسی کے مطابق ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ کا سبسکرائبر بڑھے گا تو ایڈ کم ہو جائے گا۔ اگر یو ٹیوب آپ کے چینل پر پچاس فی صد بھی ایڈ چلانا شروع کر دے جبکہ وہ مونیٹائز نہ ہو تو پھر میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کو مونیٹائز کروا لیں اور اس کا پیسہ اسی چینل کی مارکیٹنگ اور گروتھ میں لگا دیں۔ یہ درست معلوم ہوتا ہے۔
فی الحال تو صورت یہ ہے کہ تلاوت قرآن کے چینلز پر واہیات اشتہارات چل رہے ہوتے ہیں۔ تلاوت سنتے سنتے اچانک کوئی بے ہودہ قسم کا اشتہار چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی درست نہیں ہے کہ یو ٹیوب آپ کو وہی اشتہار دکھاتا ہے، جو آپ دیکھتے ہیں۔ کچھ اشتہار تو ایسے ہیں جو ہم سب نے دیکھے ہوں گے اور ہر ویڈیو پر دیکھے ہوں گے جیسا کہ ان ڈرائیو، فوڈ پانڈا، گرلز گرامر وغیرہ وغیرہ کیونکہ اشتہار دکھانے والے نے بھی آئیڈیئنس سیٹ کی ہوتی ہے کہ کسے دکھانا ہے۔ اور عام طور اشتہارات میں میوزک اور عورت ہے۔ پھر آپ اس کو جائز بھی سمجھتے ہوں لیکن کسی درس قرآن یا درس حدیث کے دوران اس کا آ جانا کیسے مناسب ہو سکتا ہے جبکہ انسان یہ بھی پسند نہ کرتا ہو کہ اس کے درس کے دوران کوئی شاگرد یا سامنے بیٹھا ہوا بھی اس کی بات کاٹ دے۔ یہ اشتہارات آپ کی بات کی قدر کم کر دیتے ہیں اور دینی بات کی قدر کم کروانا مناسب امر نہیں ہے۔
اور جو لوگ مونیٹائزیشن کے جواز کے بھی قائل ہیں، وہ بھی اسے فرض نہ بنا لیں۔ دیکھیں، آج کل کے زمانے میں روپیہ پیسہ کون چھوڑتا ہے، کسے برا لگتا ہے کہ گھر بیٹھے اس کے پاس پیسے آئیں۔ پس اگر کسی نے چینل مونیٹائز نہیں کروایا تو اسے تحسین کی نظر سے دیکھیں کہ کم از کم قیامت کے دن یہ تو کہہ سکتا ہے کہ یا اللہ، آپ کی خاطر یہ روپیہ پیسہ چھوڑ دیا تھا اگرچہ فتوی بھی تھا لیکن مجھے سمجھ ہی یہی آیا تھا کہ یہ پیسہ درست نہیں ہے۔ تو کیا اللہ عزوجل اسے اس تقوی پر آخرت میں کچھ اجر نہ دیں گے جبکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
پھر جو ہم حدیثیں پڑھتے ہیں کہ حلال بھی واضح ہے، حرام بھی واضح ہے، اور اس کے مابین مشتبہ امور ہیں، جس نے ان سے اپنے آپ کو ان مشتبہ امور سے بچا لیا تو اس نے اپنا دین اور عزت دونوں بچا لیے۔ تو اب یہ کم از کم مشتبہ امور میں تو ہے اور علماء کو مشتبہات سے بھی بچنا چاہیے کہ ان کے مقام اور مرتبے کا تقاضا یہی ہے۔ واللہ اعلم