یوں قید زندگی نے رکھا مضطرب ہمیں ، جیسے ہوئے ہوں داخل زنداں نئے نئے

باندھ کر عہد وفا کوئی گیا ہے مجھ سے اے مری عمر رواں اور ذرا آہستہ
0
34
poet

منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پائوں تھکنے سے

ادیبؔ سہارنپوری

اردو کے معروف شاعر عبدالرئوف المعروف ادیب سہارنپوری 28؍مئی 1920ء کو سہارنپور ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آئے 16 جولائی 1963 میں کراچی میں انتقال ہوا۔

منتخب کلام

منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پاؤں تھکنے سے

اپنے اپنے حوصلوں اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا

راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
غم پالتی ہے عمر گریزاں نئے نئے

ہزار بار ارادہ کئے بغیر بھی ہم
چلے ہیں اٹھ کے تو اکثر گئے اسی کی طرف

باندھ کر عہد وفا کوئی گیا ہے مجھ سے
اے مری عمر رواں اور ذرا آہستہ

یہی مہر و ماہ و انجم کو گلہ ہے مجھ سے یارب
کہ انہیں بھی چین ملتا جو مجھے قرار ہوتا

اک خلش کو حاصل عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا

آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا

کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا

اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا

کون اس طرزِ جفاۓ آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا

یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے
محسوس ہو رہے ہیں دل و جاں نئے نئے

یوں قید زندگی نے رکھا مضطرب ہمیں
جیسے ہوئے ہوں داخل زنداں نئے نئے

کس کس سے اس امانت دیں کو بچایئے
ملتے ہیں روز دشمن ایماں نئے نئے

راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
غم پالتی ہے عمر گریزاں نئے نئے

مسجد میں اور ذکر بتوں کا جناب شیخ
شاید ہوئے ہیں آپ مسلماں نئے نئے

دم بھر دم اجل کو نہ حاصل ہوا فراغ
ہوتے رہے چراغِ فروزاں نئے نئے

خانہ خراب ہم سے جہاں میں کہاں ادیبؔ
آباد کر رہے ہیں بیاباں نئے نئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترے نام کی تھی جو روشنی, اسے خود ہی تونے بجھا دیا
نہ جلاسکی جسے دھوپ بھی, اُسے چاندنی نے جلادیا

میں ہوں گردشوں میں گھرا ہوا, مجھے آپ اپنی خبر نہیں
وہ شخص تھا میرا رہنما , اُسے راستوں میں گنوادیا

جسے تو نے سمجھا رقیب تھا , وہی شخص تیرا نصیب تھا
ترے ہاتھ کی وہ لکیر تھا, اسے ہاتھ سے ہی مٹادیا

مری عمر کا ابھی گلستان ,تو کھلا ہوا ضرور پر!
وہ پھول تھے تیری چاہ کے، انہیں موسموں نے گرا دیا

Leave a reply