اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ صدا دی ترے در کے خیال میں
جگن ناتھ آزاد
جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر، 1918ء کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہے۔ ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے شاعر تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔
تعلیم
۔۔۔۔۔۔
جگن ناتھ آزاد نے 1933ء میں میانوالی سے میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ 1935ء میں انہوں نے ڈی اے بی کالج راولپنڈی سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد نے لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے لاہور میں 1942ء میں فارسی آنرز کیا اور پھر 1944ء میں جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی میں ایم اے کیا تھا۔ یہاں انہیں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبد ﷲ، صوفی غلام مصطفی تبسم، پروفیسر علیم الدین سالک اور سید عابد علی عابد جیسے اساتذہ سے ملنے اور فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔
پہلی شادی خانہ آبادی
۔۔۔۔۔۔
جگن ناتھ آزاد کی شادی 11 دسمبر، 1940ء کو ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کا نام شکنتلا تھا۔ اس بیاہ سے پرمیلا اور مُکتا نام کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ شکنتلا 1946ء میں بیمار ہوگئیں اور ہر ممکن علاج کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکیں۔ اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ آزاد نے ’’شکنتلا‘‘، ’’ایک آرزو‘‘ اور ’’استفسار‘‘ نامی نظمیں اپنی رفیقہ حیات کی یاد میں لکھیں۔
تقسیم ہند اورآزاد کا
۔۔۔۔۔۔
ہندوستان نقلِ مقام کرنا
۔۔۔۔۔۔
تقسیم ہند کے بعد آزاد دیگر ارکانِ خانہ کے ساتھ ہندستان چلے آئے اور دہلی میں بس گئے۔ انہیں اولاً ’’ملاپ‘‘ میں نائب مدیر کی ملازمت ملی تھی۔ پھر ’’ایمپلائمنٹ نیوز’’ میں روزگار پایا اسی سے منسلک ’’پبلی کیشنز ڈویژن’’ میں اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنے۔ یہاں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی سے ہوئیں جو رسالہ ’’آج کل‘‘ (اردو) کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی کے علاوہ عرش ملسیانی، بلونت سنگھ اور پنڈت ہری چند اختر جگن ناتھ آزاد کے ہم منصب رہے۔ ان کی مصاحبت سے آزاد نے بہت کچھ جانا تھا۔
دوسری شادی خانہ آبادی
جولائی 1948ء میں آزاد کی دوسری شادی وملا نامی خاتون سے ہوئی۔ اس بیاہ سے تین بچے مولود ہوئے۔ سب سے بڑا بیٹا آدرش، چھوٹا بیٹا چندر کانت اور سب سے چھوٹی بیٹی پونم تھی۔
شعری مجموعے
۔۔۔۔۔۔
جگن ناتھ آزاد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طبل و علم‘‘ 1948ء میں چھپا۔ 1949ء میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’بیکراں‘‘ چھپا۔
جموں و کشمیر میں ملازمت
۔۔۔۔۔۔
1968ء میں آزاد نے ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر پریس انفارمیشن بیورو کے طور پر سری نگر، کشمیر میں ملازمت اختیار کی۔ وہ ڈائرکٹر پبلک ریلشنز کے طور پر 1977ء تک کام کرتے رہے۔ 1977ء میں ہی آزاد کو پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی کی پیش کش ہوئی جسے آزاد نے منظور کیا تھا۔ 1977ء سے 1983ء تک وہ پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی اور ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرنینگ جموں یونیورسی کے عہدے پر فائز رہے۔ 1984ء سے 1989ء تک پروفیسر ایمریٹس فیلو کی حیثیت سے شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی میں رہے اور پھر 1989ء سے اپنی زندگی کے اخیر تک وہیں رہے۔
انتقال
۔۔۔۔۔۔
جگن ناتھ آزاد 24 جولائی، 2004ء کوانتقال کر گئے تھے۔
غزل
۔۔۔۔۔
ممکن نہیں کہ بزم طرب پھر سجا سکوں
اب یہ بھی ہے بہت کہ تمہیں یاد آ سکوں
یہ کیا طلسم ہے کہ تری جلوہ گاہ سے
نزدیک آ سکوں نہ کہیں دور جا سکوں
ذوق نگاہ اور بہاروں کے درمیاں
پردے گرے ہیں وہ کہ نہ جن کو اٹھا سکوں
کس طرح کر سکو گے بہاروں کو مطمئن
اہل چمن جو میں بھی چمن میں نہ آ سکوں
تیری حسیں فضا میں مرے اے نئے وطن
ایسا بھی ہے کوئی جسے اپنا بنا سکوں
آزادؔ ساز دل پہ ہیں رقصاں وہ زمزمے
خود سن سکوں مگر نہ کسی کو سنا سکوں
غزل
۔۔۔۔۔
خیال یار جب آتا ہے بیتابانہ آتا ہے
کہ جیسے شمع کی جانب کوئی پروانہ آتا ہے
تصور اس طرح آتا ہے تیرا محفل دل میں
مرے ہاتھوں میں جیسے خود بہ خود پیمانہ آتا ہے
خرد والو خبر بھی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
جنوں کی جستجو میں آپ ہی ویرانہ آتا ہے
کبھی قصد حرم کو جب قدم اپنا اٹھاتا ہوں
مرے ہر اک قدم پر اک نیا بت خانہ آتا ہے
در جاناں سے آتا ہوں تو لوگ آپس میں کہتے ہیں
فقیر آتا ہے اور با شوکت شاہانہ آتا ہے
دکن کی ہیر سے آزادؔ کوئی جا کے یہ کہہ دے
کہ رانجھے کے وطن سے آج اک دیوانہ آتا ہے
وہی ذکر دکن ہے اور وہی فرقت کی باتیں ہیں
تجھے آزادؔ کوئی اور بھی افسانہ آتا ہے
اشعار
۔۔۔۔۔۔
کنارے ہی سے طوفاں کا تماشا دیکھنے والے
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
میں کیا کروں کہ ضبط تمنا کے باوجود
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
ڈھونڈھنے پر بھی نہ ملتا تھا مجھے اپنا وجود
میں تلاش دوست میں یوں بے نشاں تھا دوستو
سکون دل جہان بیش و کم میں ڈھونڈنے والے
یہاں ہر چیز ملتی ہے سکون دل نہیں ملتا
ہم نے برا بھلا ہی سہی کام تو کیا
تم کو تو اعتراض ہی کرنے کا شوق تھا
بہار آئی ہے اور میری نگاہیں کانپ اٹھیں ہیں
یہی تیور تھے موسم کے جب اجڑا تھا چمن اپنا
اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا
بتا اے پیر مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری
چلتے رہے ہم تند ہواؤں کے مقابل
آزادؔ چراغ تہ داماں نہ رہے ہم
اس سے زیادہ دور جنوں کی خبر نہیں
کچھ بے خبر سے آپ تھے کچھ بے خبر سے ہم
تمہیں کچھ اس کی خبر بھی ہے اے چمن والو
سحر کے بعد نسیم سحر پہ کیا گزری
اک بار اگر قفس کی ہوا راس آ گئی
اے خود فریب پھر ہوس بال و پر کہاں
ادب پارے
۔۔۔۔۔۔
’’جگن ناتھ آزاد‘‘
۔۔۔۔۔۔
جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا تشریف لے گئے تو چائے دیتے ہوئے میزبان نے پوچھا کہ آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟ جواب دیا: ’’اپنے گھر تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں، لیکن باہر چائے پینے پر دو، تین چمچ سے کم چینی نہیں لیتا۔‘‘ اس پر میزبان نے ایک چمچ چینی اُن کی چائے میں ڈالتے ہوئے کہا: ’’آزاد صاحب! اسے اپنا ہی گھر سمجھئے۔‘‘
*
اٹلانٹا میں جگن ناتھ آزاد، محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعر اسٹون فائونڈیشن دیکھنے نکلے اور وہاں تصویریں لینے لگے۔ حمایت علی شاعر نے تصویر لیتے ہوئے کہا کہ کیمرہ تصویر تو لے لے گا، لیکن ہے ذرا پرانا۔ آزاد نے برجستہ کہا: ’’ہمیں کون سا خریدنا ہے۔‘‘
*
جگن ناتھ آزاد، پہلی دفعہ پاکستان پہنچے۔ مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل نے اُن کے اعزاز میں دعوت دی، جس میں احتراماً صرف سبزیاں ہی رکھی گئیں۔ کھانا ختم ہونے کے بعد جگن ناتھ آزاد نے طفیل صاحب کو مخاطب کرکے کہا: ’’اگر آپ کو سبزیاں ہی کھانی کھلانی تھیں تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
*
جگن ناتھ آزاد کی پاکستان آمد پر اُن کے اعزاز میں ’’شامِ ہمدرد‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اسٹیج پر آغا بابر اور ڈاکٹر زمان غزنوی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی محمد سعید نے اپنی کتاب ’’آہنگِ باز گشت‘‘ جو اُن دنوں شائع ہوئی تھی، آزاد صاحب کو پیش کرنے کے لیے برگیڈئیر گلزار احمد سے گزارش کی ۔ برگیڈئیر صاحب نے ڈاکٹر زمان غزنوی کو آزاد سمجھتے ہوئے نہ صرف مولوی صاحب کی کتاب پیش کردی، بلکہ اُن کی ادبی خدمات کے ذکر کے علاوہ اُن کے والد محترم تلوک چند محروم کے شعر؎
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہِ نور جہاں ہے
کی تعریف کرتے رہے اور جگن ناتھ آزاد پاس بیٹھے مسکراتے رہے۔
*
جگن ناتھ آزاد، بسمل سعیدی ٹونکی، ساحر ہوشیار پوری اور کچھ دوسرے شعرا مدراس کے ایک مشاعرے میں شمولیت کے لیے ریل میں سفر کررہے تھے۔ آزاد صاحب ، درمیان میں لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے آواز دے کر نیچے لیٹے بسمل صاحب سے کہا: ’’کچھ پڑھنے کے لیے دیجیے۔‘‘ بسمل صاحب نے اپنا مجموعۂ کلام ’’نشاطِ غم‘‘ انہیں پیش کردیا۔ آزاد صاحب نے ورق گردانی کی اور پسند نہ آنے پر کتاب بند کردی۔اپنے سامنے لیٹے ہوئے شاعر سے کوئی کتاب مانگی۔ انہوں نے جو کتاب پیش کی وہ راجستھانی شاعروں کے بارے میں تھی۔ وہ کتاب بھی آزاد صاحب کو پسند نہ آئی، لہٰذا واپس کرتے ہوئے بے خیالی میں یہ کہا:
’’اس سے تو ’’نشاطِ غم‘‘ ہی بہتر تھی۔