ظاہر جعفر کے ڈرامے، تحریر: عفیفہ راؤ

0
34

رندے ظاہر جعفر نے آج عدالت میں کافی تماشا کیا اور جتنی عدالت اور جج صاحب کی توہین آج اس نے عدالت میں کھڑے ہو کر کی ہے اس کی آج سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ویسے تو جب پولیس درندے ظاہر جعفر کو گرفتار کرنے اس کے گھر پہنچی تھی تب سے لیکر۔۔ اس کے بعد جب بھی اس کو عدالت میں پیش کیا جاتا رہا تب بھی وہ ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی ڈرامہ کرتا ہے۔
یاد کریں پہلے اس نے پولیس کے سامنے موقع واردات پر نور کی لاش کو کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ کوئی انسان نہیں بلکہ گڑیا ہے۔ اور اس طرح کی ایکٹنگ کر رہا تھا جیسے وہ کوئی ذہنی مریض ہے۔ پھر عدالت میں بھی پہلے یہ صرف انگریزی بول کر ڈرامہ کرتا تھا پھر چند دن جیل کی ہوا کھا کر اس کو اردو بھی آ گئی تھی۔ بار بار اجازت کے بغیر یہ عدالت میں بولنے کی بھی کوشش کرتا تھا۔ جب اس حرکت پر ایک دو بار اسے عدالت سے باہر نکالا گیا تو اس نے عدالت میں اور راستے میں آتے جاتے بڑبڑانا شروع کر دیا تھا۔۔ اور تو اور ایک بار تو جج صاحب کو اس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مجھے بتائیں کہ مزید کتنے دن لگیں گے فیصلہ ہونے میں۔۔۔ پھر کبھی یہ عدالت کے سامنے ایمبسی والوں کی بات کر کے اپنے فارن نیشنل ہونے کا رعب جمانے کی کوشش کرتا تھا۔ اور تو اور یہ بھی فرمائش کی گئی تھی کہ معافی دے دیں یا پھانسی دے دیں میں جیل میں نہیں رہ سکتا۔۔ قیدیوں کے ساتھ بھی اس کی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہر وہ عجیب حرکت جیل اور عدالت میں کی ہے جو آج سے پہلے تو سننے میں کبھی نہیں آئیں۔

لیکن آج کی سماعت میں تو اس نے پچھلی تمام حدیں ہی پار کر دیں۔آج جب کیس کی عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو تین سرکاری گواہان کو گواہی دینے کے لیے عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ایک سرکاری گواہ عامر شہزاد جو کہ ایک نقشہ نویس ہے جب اس نے جائے وقوعہ کی تفصیلات بتانا شروع کیں تو ظاہر جعفر نے اچانک ہی بغیر کسی اجازت کے بولنا شروع کر دیا۔ اور جب جج صاحب نے اسے خاموش رہ کر کارروائی کا حصہ بننے کا کہا تو اس نے اونچی آواز میں کہا کہ یہ میری کورٹ ہے اور میں نے بات کرنی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ آج عدالت میں یہ کسی حمزہ نامی شخص کا نام بھی لیتا رہا کہ میں نے حمزہ کو عدالت میں بلانا ہے۔ خیر آگے چل کر جب درندے کی سائیڈ کے گواہوں کے بیانات قلمنبد کروانے کا وقت آئے گا تو ہو سکتا ہے کہ پتہ چل ہی جائے کہ یہ حمزہ کون ہے اور اس کا اس کیس سے کیا تعلق ہے۔ اس دوران جج صاحب نے درندے ظاہر جعفر کے وکیل اکرم قریشی سے پوچھا کہ کیا ظاہر جعفر کی آج کی کارروائی میں ضرورت ہے جس پر انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے بعد عدالت نے نائب کورٹ کے ذریعے جب درندے ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کا کہا تو عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے درندے کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد ظاہر جعفر خاموش ہو کر کھڑا ہو گیا اور کمرہ عدالت کے دروازے کے ساتھ لگ کر عدالتی کارروائی کو سنتا رہا۔کچھ دیر تو ظاہر جعفر نے عدالتی کارروائی کو خاموشی سے سنا لیکن اس کے بعد آج پھر اس کو اپنی انگریزی یاد آ گئی اور وہ انگریزی میں بولنا شروع ہو گیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنے نااہل افراد نہیں دیکھے جتنے اس کمرے میں موجود ہیں۔ اور بار بار یہی دہراتا رہا کہ یہ میرا کورٹ ہے مجھے اور میری فیملی کو بتایا جائے کہ کیا ٹرائل چل رہا ہے۔ میں اور میری فیملی انتظار کر رہے ہیں کہ آخر آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے پھر اسے بولنے سے روکا جس کے کچھ دیر بعد ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں لگے پردے کو پہلے تو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر اونچی آواز میں بولا کہ پردے کے پیچھے کیا ہے؟جج عطا ربانی جو کافی دیر سے درندے کی ان تمام فضول حرکتوں کو برداشت کر رہے تھے آخر ان کا صبر جواب دے گیا اور انھوں نے ریمارکس دیے کہ ملزم یہاں پر خبر بنانے کے چکروں میں ہے اور ڈرامے بازی کر رہا ہے۔ ظاہری سی بات ہے وہ ایک قابل اور تجربہ کار جج ہیں روزانہ اتنے ملزمان کو دیکھتے ہیں ان سے زیادہ کون پہچان سکتا ہے کہ یہ درندہ اب ڈرامہ کرکے دراصل کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

جس کے بعد پھر بھی برداشت اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عطا ربانی صاحب نے سکیورٹی پر مامور پولیس انسپکٹر کو حکم دیا کہ ملزم کو آرام سے کمرہ عدالت سے باہر لے جائیں۔
لیکن جب پولیس انسپکٹر مصطفی کیانی نے ظاہر جعفر کو ہاتھ سے پکڑ کر کمرہ عدالت سے باہر لے کر جانے کی کوشش کی توآج درندے نے عدالت میں ہی اپنی درندگی دکھانی شروع کر دی۔ پولیس انسپکٹر سے جھگڑا شروع کر دیا یہاں تک کہ پولیس افسر کا گریبان بھی پکڑ لیا اور درندے کی اس حرکت کے بارے میں۔۔ میں آپ کو بتاوں کہ یہ قانونا جرم ہے کہ آپ کسی سرکاری اہلکار کو آن ڈیوٹی یونیفارم میں اس کے گریبان پر ہاتھ ڈالیں اگر اس نقطے کو اٹھایا جائے تو اس پر بھی اس درندے کی سزا بنتی ہے لیکن خیر ایسی چھوٹی موٹی سزا کا کوئی فائدہ نہیں اس کی اصل سزا تو یہی ہو گی کہ پوری قوم اس کو پھانسی کے تختے پر لٹکا ہو دیکھے۔خیر پولیس سے ظاہر جعفر کی لڑائی پر عدالت میں افراتفری مچ گئی دوسرے پولیس والے اپنے ساتھی کی مدد کرنے آگئے لیکن ظاہر جعفر اتناvoilentہوا ہوا تھا کہ وہ تین چار پولیس والوں سے تو قابو ہی نہیں ہو رہا تھا اس لئے وہاں مزید نفری بلانا پڑی اور اسے نہ صرف زبردستی کمرہ عدالت سے باہر نکالنا پڑا بلکہ باہر نکل کر بھی جب وہ قابو نہیں آ رہا تھا تو پولیس والوں کو اسے دونوں ٹانگوں اور دونوں بازوں سے پکڑ کربخشی خانے لے جانا پڑا۔لیکن اب میں آپ کو اندر کی بات بتاتا ہوں کہ پاکستان پینل کورٹ سیکشن 84کے مطابق اگر کوئی شخص پاگل ہے، نشہ کرتا ہے یا اگر اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے تو وہ جو Offenseکر رہا ہے وہ Considerنہیں کیا جاتا کیونکہ وہ ہوش و حواس میں نہیں ہوتا اور اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اور یہ بات درندہ اور اس کی فیملی بہت اچھے سے جانتے ہیں اس لئے وہ شروع دن سے ہی عجیب و غریب حرکتیں کر رہا ہے۔ اور عدالت کے سامنے بھی ڈرامہ کرنے کا یہی مقصد ہے کہ جب اس کے وکیل اپنے دلائل دیں تو اس سے پہلے ہی سب کے مائنڈ میں ہو کہ یہ درندہ تو پہلے بھی عجیب و غریب حرکتیں کرتا رہا ہے اس لئے شاید واقعی یہ ایک ذہنی مریض ہے اس طرح اس کو جیل سے رہائی بھی دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ اور صرف درندے کی حرکتیں ہی نہیں بلکہ اس کے ملازموں نے بھی جو 161کے بیانات ریکارڈ کروائے گئے ہیں ان میں بھی ایسی ہی باتیں کی گئیں ہیں کہ نور نے جب چھلانگ لگائی اور ظاہر اس کو پکڑنے اس کے پیچھے آیا تو ظاہر کی حالت ٹھیک نہیں تھی یہ بات ملازموں کے اپنے بیانات میں کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ جب درندے نے نور کو قتل کیا تو اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اسی لئے جعفر فیملی جو اپنے بیٹے کے لئے وکیل نہیں کر رہے تھے انھوں نے اپنے ملازموں کو اتنے مہنگے مہنگے وکیل کرکے دئیے ہیں تاکہ ان کی Loyalityتبدیل نہ ہو جائے اور وہ ان کے بیٹے کے خلاف کوئی ایسا بیان نہ دے دیں جو اس کے خلاف استعمال ہو سکے۔

اس مقدمے میں ابھی تک بارہ گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں آج کی سماعت میں تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونے تھے لیکن اس تمام بد تمیزی کی وجہ سے سماعت کو مختصر کرنا پڑا صرف نقشہ نویس عامر شہزاد کا ہی بیان ریکارڈ ہوا اور اس پر جراح کی گئی لیکن یہ جراح بھی ابھی نا مکمل ہے کیونکہ ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ جو کہ رضوان عباسی کی جگہ آئے ہیں وہ آج عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے اس لئے اب وہ عامر شہزاد سے اگلے سماعت پر جراح کریں گے جو کہ دس نومبر کو ہو گی۔ امید ہے کہ اگلی دو سماعتوں میں اگر کوئی بد نظمی نہ ہوئی تو تمام سرکاری گواہوں کے بیانات قلمبند ہو جائیں گے جس کے بعد دوسری پارٹی اپنے دفاع میں گواہ پیش کرے گی۔ایک اور اہم پوائنٹ اس تمام کاروائی میں یہ بھی ہے کہ عدالتی کاروائی میں دخل اندازی کا مقصد کیس کو لٹکانا بھی ہے تاکہ ٹرائل جلد پورا نہ ہو سکے۔ عام لوگ اور صحافی سب اس کیس کو فالو کرنا چھوڑ دیں اور پھر درندے کی فیملی اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اپنے بیٹے کو ذہنی مریض ثابت کرتے ہوئے رہا کروا لیں۔ لیکن ایسا ہو گا نہیں نہ تو ہم اس کیس کو بھولیں گے نہ ہی لوگوں کو بھولنے دیں گے اور انشا اللہ اس درندے کا ایسا عبرتناک انجام ہوگا کہ اس خاندان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔

Leave a reply