مزید دیکھیں

مقبول

گوجرہ: دو بچے نہر میں ڈوب کرزندگی کی بازی ہار گئے

گوجرہ،باغی ٹی وی (نامہ نگارعبدالرحمن جٹ) نہر میں نہاتے...

بیٹی کی طبیعت میں بہتری ،محمد یوسف دورہ نیوزی لینڈ کیلئے دستیاب ہوں گے

لاہور: قومی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کنسلٹنٹ محمد یوسف...

لینڈ سلائیڈنگ کے سبب قراقرم ہائی وے لوتر کے مقام پر بند

بھاری لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اپر کوہستان میں...

9مئی سانحہ:شاہ محمود، یاسمین راشد سمیت دیگر پر فرد جرم عائد

لاہور: انسداد دہشت گردی عدالت لاہورجیل ٹرائل میں اہم...

ٹرمپ کا جوہری معاہدے پرمذاکرات کا خط نہیں ملا،ایران

ایران کا کہنا ہے کہ اسے امریکی صدر ڈونلڈ...

ظرافت نگاری کی شان شوکت تھانوی .تحریر : ریحانہ صبغتہ اللّٰہ

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی خوبیوں سے نوازا ہوتا ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتیں ۔اور یہی خوبی انہیں باقی تمام انسانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک ایسی ہی شخصیت شوکت تھانوی کی بھی تھی جو اپنے فن سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔شوکت تھانوی نے اردو ادب کی ہر صنف میں اپنا مقام بنایا ۔شوکت تھانوی مزاح نگاری میں بھی اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں ۔وہ اردو ادب میں بہترین ناول نگار تھے افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے ۔

شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا ۔وہ 3فروری 1904ءکو بھارت کی ریاست اتر پردیش میں پیدا ہوئے ۔ان کا آبائی وطن تھانہ بھون تھا اس لیے اپنے نام کے ساتھ تھانوی لکھتے ۔اردو ادب میں شوکت تھانوی کی کئی جہتیں ہیں وہ ادیب ،صحافی،شاعر،ڈرامہ نگار ،افسانہ نویس ،کالم نویس ،فلمی مکالمہ نویس ،فلمی کہانی نویس ،ناول نگار صدا کار اور ریڈیو فیچر نگار تھے ۔یہاں تک کہ انہوں نے ایک فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ۔شوکت تھانوی ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے ذوق و شوق ،محنت و لگن ہمت و کوشش اور اہل فیض و صحبت سے ادب میں اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا ہے ۔بڑے سے بڑے اور سنجیدہ سے سنجیدہ مسلے کو وہ اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں حل کر لیتے تھے ۔

عام طور پر ایک مزاح نگار کے بارے میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بھی سنجیدہ نہیں ہوگا لیکن شوکت صاحب اپنی زندگی میں نہایت سنجیدہ انسان تھے ۔وہ اپنے ایک خاکے "عشرت رحمانی”میں لکھتے ہیں کہ جن حضرات نے ان کے افسانے ،ناول اور مزاحیہ مضامین پڑھے ہیں وہ سمجھتے ہوں گے کہ شوکت صاحب کی زندگی کا کوئی لمحہ سنجیدگی سے نہیں گزرا ہو گا ،مگر یہ ان کی خام خیالی ہے ۔شوکت تھانوی جیسے مزاح نگار تھے اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے ۔

شوکت تھانوی نے ادب کی جن اصناف میں طبع آزمائی کی ان میں خاکہ نگاری بھی شامل ہے ۔اس میں انہوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور نمونے کے طور پر دو مجموعے "شیش محل”اور "قاعدہ بے قاعدہ”پیش کئے ۔ان دو مجموعوں کو بیحد شہرت ملی ۔ان کا ہر ناول دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ شگفتگی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ان کی خصوصیات معاشرتی تصور ہے ۔

ان کا مزاح تجربات اور مشاہدات کی عکاسی کرتا ہے ۔
وہ زیادہ تر عملی زندگی کے واقعات سے مزاح پیدا کرتے تھے اور ان کے کرداروں کی تخلیق وہ اپنی آس پاس کی زندگی زندگی سے ہی کرتے تھے ۔
شوکت تھانوی میں قوت مشاہدہ ،باریک بینی اور قوتِ اظہارکی خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں ۔
ان کی نظموں کے موضوعات گھریلو ،سماجی،سیاسی اور غیر سیاسی ہیں جس میں ہر برائی ،خامی اور ناہمواری کو ظریفانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ان کی ایک نظم فیملی پلاننگ ،مفلسی اور کثرت اولاد سے متعلق ہے ۔اس نظم میں ایک غریب آدمی کثرت اولاد کے مخالف ہے۔
اور اپنے لخت جگر کو دنیا میں آنے سے پہلے کہتا ہے کہ وہ مفلسی کے اس حال میں پیدا نہ ہو ۔
اے میرے بچے میرے لخت جگر پیدا نہ ہو
یاد رکھ پچھتاۓ گا تو میرے گھر پیدا نہ ہو
شوکت تھانوی اس صورتحال کو ظرافت کے پیرائے میں بڑی خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

شوکت تھانوی ایک مزاح نگار ،شاعر،افسانہ نگار اور ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ صحافی بھی تھے ۔ان کی زیادہ تر تخلیقات اخبار اور رسائل کے ذریعے عوام کے سامنے آئیں ۔
ان کی صحافتی زندگی کے متعلق احمد جمال پاشا لکھتے ہیں کہ شوکت تھانوی پیدائشی صحافی تھے ۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز زمانہ طالبعلمی میں 1920ءسے ہوا ۔اس وقت ان کی عمر صرف 16سال تھی جب شوکت تھانوی نے ذاتی طور پر اپنا قلمی رسالہ نکالا ۔منشی واجد علی لطف لکھنوی رسالہ "حسن ادب”لکھنؤ سے نکالتے تھے ۔1925ءمیں شوکت تھانوی نے اس رسالے کی بھی ادارت کی ۔اس کے علاوہ ان کے چچا زاد بھائی ارشد تھانوی 1928ءمیں ایک پرچہ "تحریک ہفتہ وار یار” بھوپال سے نکالا کرتے تھے اور جب وہ لکھنؤ منتقل ہوۓ تو اس پرچے کو لکھنؤ سے جاری کیا اور اس میں شوکت تھانوی کو بھی شامل کیا ۔اس اخبار کا فقاہیہ کالم جو
"لالہ زار "کے عنوان سے لکھا جاتا تھا اس کو شوکت تھانوی کے سپرد کر دیا ۔وہ مختلف اخبارات میں
"حرف و حکایت "اور "پہاڑ تلے”کے عنوان سے کالم نویسی بھی کیا کرتے تھے ۔

شوکت تھانوی ریڈیو سے بھی وابستہ رہے ۔انہوں نے ریڈیو پر نشری اصناف پر طبع آزمائی کی شگفتہ اور دلچسپ تحریروں کو نشر کیا ۔اس طرح شوکت تھانوی کے تخلیقی سرمائے میں غیر نشریاتی ادب کے ساتھ ساتھ نشریاتی ادب کا ذخیرہ بھی ملتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شوکت تھانوی براڈکاسٹنگ کا بھی ایک روشن ستارہ تھے ۔1938ءمیں انہوں نے صحافت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔آل انڈیا ریڈیو سے ڈرامہ نگار کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے ۔ساتھ ہی ساتھ صدا کاری بھی کرنے لگے ۔پھر جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو آپ لاہور آگئے اور ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے فیچر نگاری کرنے لگے اور مختلف پروگرامز کے علاوہ اپنا معروف پروگرام "قاضی جی”بھی پیش کرتے تھے ۔ان کا یہ پروگرام ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام تھا ۔جس کا اسکرپٹ خود شوکت تھانوی لکھتے تھے اور قاضی جی کا کردار بھی خود ہی ادا کرتے تھے ۔

ریڈیو کی نشریاتی اصناف میں ریڈیو تقاریر ،ریڈیو ڈرامہ اور مضامین شامل ہیں ۔ان سبھی پر شوکت تھانوی نے لکھا ہے لیکن نشریاتی ادب میں شوکت تھانوی کو خاص شہرت و مقبولیت ریڈیو ڈرامہ کی وجہ سے ملی ۔کیونکہ ریڈیو ڈرامہ نشریات اور ادبی حیثیت سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ریڈیو پر شوکت تھانوی کا پہلا ڈرامہ "خدا حافظ”نشر ہوا جس میں ہیرو کا کردار بھی خود شوکت تھانوی نے ہی ادا کیا ۔اس کے بعد انہوں نے ریڈیو سٹیشن کی طرف سے ایک منفرد سیریز بھی پیش کی جس کا عنوان "منشی جی”تھا ۔

ڈراموں میں شوکت تھانوی نے ایک مزاحیہ کردار کا سہارا لے کر معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو ظرافت کے پیرائے میں نہ صرف پیش کیا بلکہ نہایت لطیف اور دلکش انداز میں روزمرہ کی زندگی پر طنز کیا۔
شوکت تھانوی چھوٹی بڑی تخلیق میں جدت اور نیا پن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔شوکت تھانوی کے ہر مکالمے اور جملے برجستہ اور دلچسپ ہوتے ۔شوکت تھانوی کے ریڈیو ڈراموں کی ایک کتاب "سنی سنائی”بھی ہے ۔کم وقت میں زیادہ لکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کی تصانیف کی کثیر تعداد ہے ۔ان کی تصانیف میں سو دیشی ریل سب سے زیادہ مشہور ہے ۔اس کے علاوہ موج تبسم ،طبر تبسم ،سیلابی تبسم ،بحرتبسم ،طوفان تبسم ،بار خاطر ،جوڑ توڑ ،سنی سنائی ،خدا نخواستہ،بقراط،قاعدہ باقاعدہ ،الٹ پھیر ،لاہور یار ،قاضی جی،منشی جی،بھابھی،کچھ یادیں کچھ باتیں ،غالب کےڈرامے ،کٹیا ، بیگم ، داماد،خامخواہ ،نیلوفر،غزالہ،وفا کی دیوی ،مولانا ،شیطان کی ڈائری اور پگلی وغیرہ شامل ہیں ۔شوکت تھانوی کی کئی تصانیف نصاب میں بھی شامل ہیں جن میں شاہین بچے اور لاڈلا بیٹا سر فہرست ہے ۔ان کے خاکوں کا مجموعہ "شیش محل” کے نام سے شائع ہوا ۔
اسی طرح ان کی خود نوشت سوانح عمری بھی تحریر کی جس کا نام ہے”ما بدولت ” ۔
یادداشتوں پر مشتمل کتاب”کچھ یادیں”کے عنوان سے شائع ہوئیں ۔
حکومت پاکستان نے شوکت تھانوی کی خدمات کے صلے میں تمغہ امتیاز سے نوازا ۔ادب کی دنیا میں شوکت تھانوی کا نام روشن ستارے کی طرح چمکتا رہے گا (انشاء اللہ)
اردو ادب کے اس نامور ادیب اور مزاح نگار کا انتقال 4مئی 1963ءکوانسٹھ سال کی عمر میں ہوا ۔ان کی آخری آرام گاہ لاہور کے میاں میر قبرستان میں واقع ہے ۔