سیاسی و مذہبی جماعتیں ملکی تاریخ کا آئیے مل کر سوچیں ہم کیوں زوال پذیر ہیں ہماری معیشت کیوں سال ہا سال مستحکم نہیں ہوتی؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ کہاں شگاف ہے کہاں غلطیاں ہیں کون سی کل انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ٹیڑھی ہے اور ایسا کون سا گناہ ہے سختیاں پریشانیاں ختم ہونے کو نہیں آتیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں مگر اسلام کی الف پر بھی عمل نہیں کرتے؟ یاد رکھیئے پروردگار کا قانون ہے خداپاک کا قانون قرآن پاک کی صورت میں موجود ہے کہیں ہم قرآن پاک اور سیرت النبی کا مطالعہ کرنا اور اس پر عمل کرنا تو نہیں چھوڑ گئے؟ کہیں ہم موت اور اس کے بعد روز محشر میں خدا پاک کے حضور اپنے اعمال کے ساتھ کھڑا ہونا تو نہیں بھول گئے؟ دوسری جانب رخ کریں تو بابائے قوم محمد علی جناح نے مجلس قانون ساز میں اپنے پہلے خطاب میں جن قباحتوں سے باخبر کیا تھا ہم ان قباحتوں پر عمل پیرا ہیں بابائے قوم کا خطاب اچھے دنوں میں نصاب میں پڑھایا جاتا تھا اب وہ نہیں پڑھایا جاتا۔ 25کروڑ عوام کو سیاستدان اور مذہبی جماعتیں جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بے وقوف نہیں بناسکتیں عوام کسی ایسے شخص پر اعتبار نہیں کرتے جو ریاست‘ ریاستی اداروں اور عوام کا وفادار نہ ہو اب تو پچیس کروڑ عوام کا سیاسی و مذہبی جماعتوں پر اعتماد اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے اب تو ملک کی بے بس مجبور لاوارث اور مظلوم عوام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کوستے سنے گئے ہیں کہ ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے ہمارا ایک طوفاں جب پہنچا لب ساحل تو کیا ہوگا یہ سوچو تم۔
پروردگار کے قانون سے دوری اور بابائے قوم کے فرمودات سے روگردانی ایسے میں اس کا انت اور نتیجہ کیا برآمد ہوسکتا ہے اسے جاننے کے لئے کسی عقل افلاطون کی ضرورت نہیں دیوار پر لکھا صاف نظر آرہا ہے۔