سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دُور ہوگا
تحریر: ظفر اقبال ظفر
کرومیٹک اور باغی ٹی وی کی جانب سے تمباکو نوشی کے نقصانات کی آگاہی مہم کے تناظر میں موضوع دیا گیا ہے۔ (سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دُور ہوگا )جناب عالیٰ آپ نے تمباکونوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے دفاع میں صحت مند معاشرے کے لیے فکری سوچ کا اظہار تو کر دیا ہے مگر موضوع پوچھ رہا ہے کہ سگریٹ پرٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا؟آج تک کوئی بجٹ ایسا نہیں آیا جس میں سگریٹ پربھاری ٹیکس نہ لگا ہواس کے باوجود سگریٹ کی فروخت میں نہ کمی آئی نہ ہی نئے پینے والوں کو سگریٹ سے دُوررکھا جا سکا معاشرے کے بچے نوجوان بوڑھے اپنی صحت اور دولت سگریٹ ساز کمپنیوں کے آگے ہارتے ہی چلے جا رہے ہیں آپ تمباکو کاغذ اور روئی کے فلٹر سے تیار ہونے والی سگریٹ کی بناوٹ پرآنے والے خرچے اور ٹیکس کی جانچ پڑتال کریں گئے تو علم ہوگا کہ بھاری ٹیکس اور قیمت میں حکومت اور سگریٹ ساز کمپنیاں کتنی پرُکشش آمدن حاصل کر رہے ہیں اس لیے سگریٹ پر مکمل پابندی کی بات کرنا سرکاری اور کاروباری لوگوں کو ناگوار گزرے گامگر کیا کروں میراقلم سچ پر مبنی حقائق لکھنے پر مجبور کرتا ہے تو لکھناہی پڑے گا۔

سگریٹ نشے سے بڑھ کر ایک بری عادت کا نشہ بن چکا ہے اور جس عادت کو سرکار ی اجازت ہو اسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے ریاست نے سگریٹ کو نشہ قرار نہیں دیا ہے جبکہ نشے کی معاون سگریٹ کے بغیر چرس کا نشہ ہو ہی نہیں سکتاسگریٹ خود سے بڑے ہرنشے میں اپنی شراکت بھی رکھتی ہے یعنی سگریٹ نشے کی دنیا کاپہلا قدم بھی ہے ہمارے معاشرے کے کثیر تعداد کے شرفاء بھی اس کے استعمال میں پھنسے ہوئے ہیں جو اسے غلط تسلیم کرکے اس تک ہی محدود رہتے ہیں وہ سگریٹ کی نفرت و مخالفت سے اپنے آپ کو یہاں ہی روک لیتے ہیں مگر یہ سگریٹ اپنی پیدا کردہ بیماریوں میں کہاں محدود رہتی ہے یہ اپنے پینے والے کو کتنی خاموشی سے پیتی رہتی ہے اس کا علم نقصان کے بعد ہی ہوتا ہے اس لیے تمباکو نوشی کے خلاف آگاہی مہم پر جتنا بھی کام کیا جائے کم ہے۔

قوت خودارادی کو ختم کرنے والی اس دشمن عادت کی گرفت میں آیا ہوا بندہ بڑے بڑے نشے کرکے چھوڑ دیتا ہے مگر سگریٹ نہیں چھوڑ پاتا جس کی وجہ یہی ہے کہ یہ غیر اخلاقی تو ہے مگر غیرقانونی نہیں ہے اگر سگریٹ بنانے بیچنے والوں پر یہ قانون و زمہ داری لاگو کر دی جائے کہ سگریٹ پینے سے پیدا ہونے والی تمام بیماریوں کا علاج بھی ان ہی کے زمے ہوگا تو یہ سگریٹ کا وجود ختم کرکے انسانیت کے صحت مند وجود کی فکر میں عملی کردار ہو سکتا ہے بھلے محکمہ صحت نے اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو اس کی فروخت پر منع کیا ہوا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا آج بھی بدقسمتی سے سکول کالج یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں میں سگریٹ کا حفیہ استعمال ہمارے مستقبل بنتے افراد کو اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے۔

ہرسرکاری ادارے میں سگریٹ استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کی صحت بھی اتنی ہی قابل اہمیت ہے جتنی ایک بالغ ہوتے بچے کی ہوتی ہے ڈاکٹرز سے بڑھ کر اس کے نقصانات سے کون واقف ہوگا ان کی بھی بڑی تعداداس کا شکار اسی وجہ سے ہے کہ ریاست نے اسے نشہ سمجھ کر غیرقانونی قرار نہیں دیا معاشرے کے فکرمند احباب جتنی بھی سگریٹ نقصانات پر آگاہی مہم چلا لیں وہ اتنی فائدہ مند نتائج سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں جتنی ریاست کی پابندی ہو سکتی ہے ریاست تمباکو سے بننے والی تمام مضر صحت مصنوعات پان گٹکا سگریٹ پر پابندی لگا کر سرکاری ہسپتالوں پر وہ خرچ بچا سکتی ہے جو سگریٹ کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

بچوں کے سامنے سگریٹ پیتا باپ نئی نسل کو سگریٹ کا تعارف ہی کروا رہا ہوتا ہے اور اس کے استعمال کی گنجائش بھی بتا رہا ہوتا ہے بھلے ہی وہ دل سے نہیں چاہتا کہ اس کے بچے سگریٹ کی جانب مائل ہوں مگرآزادانہ استعمال سگریٹ کی جو فضاء بن چکی ہے اسے بدلنے کے لیے حکومت پاکستان کو سگریٹ کے پیکٹوں پہ تمباکو نوشی کا انجام گینگرین لکھنے کی ناکام نفرت ڈالنے کی بجائے تمباکو نوشی کے ساتھ ساتھ تمباکو سے تیار ہونے والی ہر بیماریوں کی ماں پرپابندی لگا کر صحت مند معاشرے کی تشکیل سے دنیا کو حیران کرنا چاہیے۔

نفسیاتی و زہنی امراض دماغی کمزوری پھیپھڑوں کی تباہی سانس کی بیماریاں دل کی کمزور ی ہا رٹ اٹیک معدے و جگر کا متاثر ہونا معدے کاکھانا ٹھیک سے ہضم نہ کرنااورسگریٹ سے متاثرہ جگر کا نیا خون پیدا نہ کرنے سے جسمانی کمزوری بڑھتے بڑھتے انسان کو مرنے سے پہلے مار دیتی ہیں جو انسانی قتل کے زمرے میں آتا ہے مگرقاتل تمباکو کی دی ہوئی موت کو خدا کا حکم قرار دے کر جان لیوادشمن کو تحفظ دینے کی بجائے اس کے خلاف معاشرے کو صحت بچاؤ جنگ لڑنی چاہیے۔پریشانی دُکھ غم تکلیف وغیرہ جیسی کیفیات کو بہانہ بنا کر یاشوقیہ طور پر شروع کی گئی سگریٹ نوشی قوت خودارادی کونشانہ بناتے ہوئے ا نسانی اعصاب پر قابض ہو کر اپنے شکار انسان کو بے بس کرتی ہے جس کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر ہر صاحب احساس شہری اپنے معاشرے کو سگریٹ کے دھوئیں سے پاک کرنا چاہتا ہے

Shares: