ضمنی الیکشن کے نتائج اور ان کے اثرات — نعمان سلطان

0
39

کچھ عرصہ پہلے ایک تحریر لکھی تھی کہ انگلش فلموں میں ولن ہمیشہ انتہائی طاقتور اور ہیرو ایک عام آدمی ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کا مثبت استعمال کرتا ہے، وہ سمجھتا ہے آپ اس وقت ہارتے ہیں جب آپ خود ہار تسلیم کرتے ہیں اس لئے وہ آخری وقت تک پرامید رہتا ہے لگاتار ناکامیوں کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتا اور جیتنے کے لئے مناسب موقع کی تلاش میں رہتا ہے جب اسے قسمت سے موقع ملتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کر لیتا ہے ۔

یاد رکھیں یاد صرف فلم کا اختتام ہی رہتا ہے اور فلم کے اختتام میں حاصل کی گئی ایک کامیابی کی بنیاد پر لوگ اس کی ساری ناکامیوں کو بھول کر اسے ہیرو کا درجہ دیتے ہیں لیکن یہ ایک کامیابی حاصل کرنے کے پیچھے اس کا جوش، جذبہ اور انتھک محنت ہوتی ہے اس لئے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر شخص میں ایک ہیرو بننے کی صلاحیت ہے صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کسی کام کو ناممکن نہ سمجھیں راستے کی مشکلات سے بددل نہ ہوں ۔

پاکستان کی سیاست میں ناممکن کو ممکن بنانے والی شخصیت کا نام ہے عمران خان، جنہوں نے سیاست شروع کی تو اپنی الگ سیاسی جماعت بنائی لوگ ان پر ہنسے کہ ایک نوآموز سیاست دان پرانی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں میں کیسے اپنا مقام بنائے گا یہ عنقریب اپنی جمع پونجی لٹا کر سیاست سے تائب ہو جائے گا یا پرانی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ پر بیعت کر لے گا لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ اس نوآموز سیاست دان نے تمام پرانے سیاست دانوں کی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور اپنی انتھک سیاسی جدوجہد میں کامیابی حاصل کر کے پاکستان کے بلند ترین سیاسی مقام وزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہوا ۔

جس وقت پی ڈی ایم کی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنا وزیراعظم منتخب کرایا تو لوگوں کا خیال تھا کہ اب عمران خان پاکستان کی سیاست سے آؤٹ ہو گئے ہیں لیکن وہ رجیم چینج کا بیانیہ لے کر دوبارہ عوام کی عدالت میں گئے اور عوام کو قائل کیا کہ ان کی حکومت کی تبدیلی کی وجہ خراب طرزِ حکمرانی نہیں بلکہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی سطح پر بات چیت کرنا ہے اور ملکی مفاد کے خلاف کسی بھی بات پر انہیں واضح انکار کرنا ہے ۔

پی ڈی ایم کو قوی امید تھی کہ وہ مہنگائی کو قابو کر کے رائے عامہ کو اپنے حق میں کر لیں گے لیکن ان کی بدقسمتی کہ وہ ایسا نہ کر سکے اسی دوران پنجاب کے ضمنی انتخابات آ گئے جس میں کامیابی کی صورت میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ان کے پاس رہنی تھی اپنا نگران وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود پی ڈی ایم ضمنی انتخابات ہار گئی اور تخت پنجاب ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔

شکست کا بدلہ لینے کے لئے پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی کی ان نشستوں سے پی ٹی آئی اراکین کے استعفیٰ قبول کئے جہاں وہ کم ووٹوں سے انتخابات جیتے تھے تاکہ ان نشستوں کے ضمنی انتخابات میں وہ تمام جماعتوں کا مشترکہ امیدوار کھڑا کر کے تحریک انصاف کا مقابلہ کریں اور انہیں شکست دے کر بتائیں کہ اب تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت میں کمی آ گئی ہے اس وجہ سے عوام نے انتخابات میں انہیں مسترد کر دیا ۔

عمران خان نے کمال چالاکی سے پی ڈی ایم کی سیاسی چال انہی پر الٹ دی اور تمام حلقوں سے ضمنی انتخاب خود لڑنے کا اعلان کر دیا یہ ایک انتہائی جرات مندانہ فیصلہ تھا جس میں ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف کو ناقابلِ تلافی سیاسی نقصان پہنچ سکتا تھا لیکن عمران خان نے رسک لیا اور ضمنی انتخابات میں سات میں سے چھ حلقوں میں فتح حاصل کر کے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا جبکہ ساتویں حلقے میں انتخابی بےضابطگیوں کے واضح ثبوت ہونے کی وجہ سے اس حلقے کے انتخابی نتائج کو کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ۔

ضمنی انتخابات کے نتائج نے عمران خان کی رجیم چینج کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے جبکہ پی ڈی ایم کو ناقابلِ تلافی سیاسی نقصان پہنچایا ہے جس کا انہیں آنے والے انتخابات میں معلوم ہو گا ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد امید ہے کہ اب عمران خان کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے لانگ مارچ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور شاید مقتدر حلقوں نے ابھی تک گلے شکوے دور کرنے کے لئے ان سے رابطے بھی کر لئے ہوں ۔

اس سارے عمل میں صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب کا سیاسی کردار بھی ناقابل فراموش ہے آپ نے سیاسی فہم کا ثبوت دیتے ہوئے اس وقت مقتدرہ سے تعلقات قائم رکھے جب آپس میں شدید بداعتمادی کی فضا قائم تھی اور آپ نے تحریک انصاف اور مقتدرہ کے درمیان بداعتمادی کو دور کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا جس کی وجہ سے ان کے درمیان خلیج دور ہوئی اور آپ نے تحریک انصاف کی قیادت کو بھی یہ باور کرایا کہ ملکی مفاد میں فیصلے فرد واحد یا ایک سیاسی جماعت تنہا نہیں کر سکتی بلکہ تمام متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں اور آپس کے تعلقات دیرپا ثابت ہوں امید ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں فتح کے ثمرات تحریک انصاف کو عنقریب حاصل ہوں گے ۔

عمران خان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ ہیرو بننے کے لئے مضبوط بیک گراؤنڈ نہیں چاہیئے ہوتا اگر آپ میں جذبہ اور لگن ہو، آپ مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ان کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، ہارنے پر بددل ہونے کے بجائے جیتنے کے لئے اگلی مرتبہ زیادہ جذبے سے میدان عمل میں آنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ ٹیم پاکستان کے بھی کپتان بن سکتے ہیں اور پاکستان کے بھی کپتان بن سکتے ہیں ۔

بقولِ شاعر

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

Leave a reply