چار انجن کا دیو ہیکل جہاز جب پر پھیلائے رن وے پر کھڑا ہو تو بہت خوبصورت لگتا ہے. رن وے پر جب دوڑنے لگتا ہے تو اس کے حسن میں رعب و دبدبے کی گرج بھی شامل ہو جاتی ہے اور جب یہ زمین چھوڑ کر فضا کیلئے پرواز بھرتا ہے تو دیکھنے والوں کو وہ طمانیت ملتی ہے جو ان کو ایک تسلی دیتی ہے کہ یہ دیوہیکل آہنی پنجرہ اگر بلندی پرواز کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں.؟
اسی جہاز کے کاک پیٹ میں بیٹھا پائلٹ لیکن یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہا ہوتا. اُس کی نظریں اپنی مشین کی گھڑیوں پر ہوتی ہے کہاں اسے وہ رفتار ملے گی جب وہ v1 بول کر پرواز کیلئے انجن روٹیٹ کرے گا. جہاز جیسے ہی زمین چھوڑتا ہے پائلٹ کنٹرول ٹاور کو بتاتا ہے گئیر اپ. یعنی میں نے اپنے پہئے اٹھا لئے ہیں اب آگے ایک منزل ہے.
لیکن یہ جہاز جب زمین پر اترتا ہے تب کنٹرول ٹاور اسے بتارہا ہوتا ہے تم کتنا نیچے آگئے ہو. پانچ سو فٹ چار سو فٹ یہاں تک کے سو فٹ کے بعد دس دس فٹ کے فرق سے بتا رہا ہوتا اور پھر ٹچ ڈاون ہو جاتا ہے. آپ کی زندگی کی فلائٹ بھی ایسی ہوتی ہے. عروج دیکھنے والوں کو بڑا مسحور کرتا ہے. آپ کو ضرورت ہی نہیں ہوتی باہر کون کیا کہہ رہا ہے کیا دیکھ رہا ہے.
لیکن زندگی اونچ نیچ کا نام ہے. کسی ایک منزل سے عروج تو دوسری پر اترنا بھی ہوتا ہے. تب باہر کی آوازیں سننا لازم ٹھرتا ہے. ہم کس مقام پر کتنا نیچے آگئے ہیں یہ دوسرے ہمیں بتا سکتے ہیں. پھر جو لوگ بلندی و مقام کے تکبر میں آنکھیں اور کان بند کر دیتے ہیں وہ دھڑام سے نیچے گرتے ہیں. یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہی نہیں ہوپاتے.
زمین زادوں کو زمین سے رابطہ رکھنا ہی ہوتا ہے. جن کے یہ رابطے ٹوٹ جاتے ہیں وہ یا تو شکستہ ڈھانچہ اہل زمین کا تماشا بن جاتے ہیں یا فضائے بسیط میں گم ہو جاتے ہیں.