زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں

0
62

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پائوں پھیلائوں تو دیوار میں سر لگتا ہے

بشیر بدر

اصل نام سید محمد بشیر،ڈاکٹر 15فروری 1935ء ء کو کان پور میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ایم اے کے امتحان میں یونیورسٹی کے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے پر ’’رادھا کرشن‘‘ ایوارڈ ملا۔’’آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ‘‘لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تقرر ہوا۔ بعد میں میرٹھ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’اکائی‘، ’آسمان‘،’امیج‘، ’آہٹ‘، ’اللہ حافظ‘، ’آمد‘، ’بیسویں صدی میں اردو غزل‘، ’کلیات بشیر بدر‘ بھی شائع ہوگئی ہے۔ آپ کی غزلوں کا انتخاب ہندی میں ’’تمہارے لیے ‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ اردواکیڈمی یوپی اور بہار اردو اکادمی نے ان کی کتابوں پر انعام دیا ہے ۔ میراکادمی نے ان کو ’’امتیاز میر‘‘ پیش کیا ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:170

غزل
۔۔۔۔۔۔
وہ چہرا ساتھ ساتھ رہا جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتہ نہیں
شدت کی دھوپ، تیز ہواؤں کے با وجود
میں شاخ سے گرا ہوں نظر سے گرا نہیں
آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی تھے ،ہم کو کسی نے جیا نہیں
جس کی مخالفت ہوئی مشہور ہو گیا
ان پتھروں سے کوئی پرندا گرا نہیں
تاریکیوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں
کس نے جلائیں بستیاں،بازار کیوں لٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں

غزل
۔۔۔۔۔۔
وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایہ ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے

اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے
تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے

کہاں سے آئی یہ خوشبو، یہ گھر کی خوشبو ہے
اس اجنبی کے اندھیرے میں کون آیا ہے

مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے

اسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں
اسے زمانے نے شاید بہت ستایا ہے

تمام عمر مرا دل اسی دھوئیں میں گھٹا
وہ اک چراغ تھا میں نے اسے بجھایا ہے

اشعار
۔۔۔۔۔۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا

تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مر جاؤں گا
یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کر دو

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں
دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا

گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

تم محبت کو کھیل کہتے ہو
ہم نے برباد زندگی کر لی

حسیں تو اور ہیں لیکن کوئی کہاں تجھ سا
جو دل جلائے بہت پھر بھی دل ربا ہی لگے

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا

اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری
لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے

گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا

نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں
انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں

شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

عاشقی میں بہت ضروری ہے
بے وفائی کبھی کبھی کرنا

آنکھوں میں رہا، دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

بھول شاید بہت بڑی کر لی
دل نے دنیا سے دوستی کر لی

میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا
یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے

وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی

دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم
تم بھی تھک جاؤ گے ہم بھی تھک جائیں گے

تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا

اسی لئے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں
تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں

جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا

اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا
جس کو گلے لگا لیا وہ دور ہو گیا

کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا

عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں
میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے

بہت دنوں سے مرے ساتھ تھی مگر کل شام
مجھے پتا چلا وہ کتنی خوب صورت ہے

خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

دل کی بستی پرانی دلی ہے
جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے

تری آرزو تری جستجو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی
مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی

کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے
تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے

Leave a reply