عمران خان کا حالیہ بیان ملاحظہ کیجیے:
"سب سے پہلے افغان حکومت کو سنگین دھمکیاں دی گئیں، پھر مذہبی، اخلاقی اور پناہ گزینوں کے عالمی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین نسلوں سے پاکستان میں مقیم افغان بھائیوں کو دھکے دے کر ملک سے نکالا گیا۔ اس کے بعد افغانستان کی سرزمین پر حملے کیے گئے اور اب یہ کہہ کر کہ ‘دہشت گرد آ گئے ہیں’ قبائلی علاقوں میں آپریشن لانچ کر دیے گئے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ہر جانب ہمارے ہی لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ پولیس اہلکار، فوجی اور عام بے گناہ لوگ جو شہید ہو رہے ہیں سب ہمارے اپنے ہیں۔ اس طرز عمل سے کبھی امن قائم نہیں ہوتا، پائیدار امن ہمیشہ بات چیت سے قائم ہوتا ہے۔

افغانوں اور قبائلی عوام کے ساتھ بھی 9/11 کی طرز پر ہی ایک فالس فلیگ رچایا جا رہا ہے۔ جب سے عاصم منیر کو چارج ملا ہے، افغانستان کے ساتھ تعلقات جان بوجھ کر بگاڑے جا رہے ہیں اور انہیں مسلسل پاکستان سے جنگ شروع کرنے پر اکسايا جا رہا ہے تاکہ موجودہ افغان حکومت کی مخالفت الی کو خوش کیا جا سکے اور مغرب کے سامنے ایک ‘نجات دہندہ’ بننے کی کوشش کی جائے۔”

یہ الفاظ پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
عمران خان کی زبان ایک سنجیدہ قومی رہنما کی بجائے ایک مایوس سیاستدان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ رویہ قوم میں جھگڑا اور بے اعتمادی بڑھانے والا ہے، جبکہ مسئلے کے حل کی طرف توجہ کم ہے۔

افغان مہاجرین کا مسئلہ پیچیدہ ہے۔ پاکستان نے چار دہائیوں تک افغانوں کو پناہ دی؛ یہ خاندان یہاں بس گئے، یہاں کے معاشرے کا حصہ بنے۔ مگر اسی عرصے میں کچھ کیمپوں اور بستیوں میں منشیات، اسمگلنگ اور چھوٹے جرائم کے نیٹ ورک بھی ابھرے۔ سرکاری رپورٹس اور بعض عدالتی فیصلوں نے یہ بات اجاگر کی کہ شناختی دستاویزات کے معاملے میں بے ضابطگیاں ہوئیں۔ یہ حقائق عوام کے تحفظ کے سوالات کو جُھٹلا نہیں سکتے۔

سوال بنیادی ہے: جب کسی ملک کے شہریوں کی جان و مال خطرے میں ہو تو ریاست کی ذمہ داری کیا ہو گی؟ کیا حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت ترک کر کے غیر محدود پالیسی اختیار کرے؟ یہ اخلاقی اور سیاسی بحث جذباتی ہمدردی سے علیحدہ ہو کر ترتیب سے ہونی چاہیے۔ جب کوئی سابق وزیراعظم مہاجرین کے دفاع میں کھڑا ہوتا ہے تو اسے ریاست کی بنیادی ذمہ داری — عوام کی حفاظت — کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

"فالس فلیگ” کا الزام سنگین ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات دشمن قوتوں کے پروپیگنڈے کو تقویت دیتے ہیں۔ پاکستان کی فوج اور پولیس نے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے خلاف سخت قربانیاں دیں۔ سوات، وزیرستان، بلوچستان اور کراچی کے محاذوں پر سینکڑوں جوان اور افسران نے جانیں دیں۔ یہ سب قربانیاں محض کوئی ڈرامہ نہیں ہو سکتیں۔ ایسے الزامات شہداء کے اہلِ خانہ کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور قومی جذبہ متاثر ہوتا ہے۔

قابلِ توجہ یہ بھی ہے کہ قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے دوران جانی نقصان ہوا۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ مگر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر دہشت گرد دوبارہ آزادانہ انداز میں قدم جما لیں تو ریاست کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ ماضی میں بعض مذاکراتی تجربات نے یہ دکھایا کہ عبوری مفاہمت کے بعد کچھ گروہیں دوبارہ طاقت پکڑ گئیں۔ اسکول، پولیس چوکیوں اور عام شہریوں پر حملوں کی قیمت ہمیشہ عام آدمی نے ادا کی ہے۔ کیا ہم وہی خطرہ دہرانا چاہتے ہیں؟

جنرل عاصم منیر کے حوالے سے جو الفاظ استعمال کیے گئے، وہ ایک اور حساس موضوع ہیں۔ پالیسی پر تنقید جمہوریت کا حصہ ہو سکتی ہے، مگر فوج کی نیت پر براہِ راست شبہات اٹھانا انتہائی نازک امر ہے۔ ناقدین کے نزدیک اس قسم کے الزامات اداروں اور عوام کے درمیان دراڑ پیدا کر سکتے ہیں۔ پالیسیوں کی شفافیت پر سوال اٹھائیں، شواہد مانگیں، مگر ایسے بیانات جو اداروں کی نیت کو مشکوک کریں، ان کے نتائج سنجیدہ ہو سکتے ہیں۔

ایک بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان اکثر اپنی سیاسی ناکامیوں کا ملبہ فوج یا اداروں پر ڈالتے آئے ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار میں اقتصادی مشکلات، مہنگائی اور گورننس کے مسائل واضح رہے۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو کئی چیلنجز کا حل فراہم کرنے میں ناکام رہے؛ اب جب وہ جیل میں ہیں تو ہر مسئلے کا ذمہ دار ادارہ قرار دینا آسانی بن گیا ہے۔ یہ بیانیہ کسی قومی رہنما کے بجائے ذاتی انا کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کے منفی نتائج طویل المدت ہوتے ہیں۔

بار بار یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پالیسیاں "مغرب کو خوش کرنے” کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔ دشمن ممالک اسی طرزِ بیان کے ذریعے پاکستان کو کمزور یا کنٹرولڈ دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کسی معتبر سیاستدان کے منہ سے اس بیانیے کی تکرار، ناقدین کے نزدیک، ملکی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر غلط تاثر پیدا کرتی ہے۔قوم کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے کس سیاسی قیادت پر اعتماد کرنا چاہیے۔ کیا وہ ایسے لیڈر کو برداشت کرے گی جو ہر مسئلے کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو ٹھہراتا ہے؟ کیا وہ ایسے بیانات قبول کرے گی جو اداروں اور عوام کے درمیان شکوک و شبہات کو ہوا دیں؟ پاکستان کی سلامتی کسی فرد یا سیاسی جماعت سے بڑی ہے۔ ادارے مضبوط رہیں تو ریاست مضبوط رہے گی؛ اور مضبوط ریاستی ادارے ہی ملک کو درپیش خطرات سے نبردآزما رہ سکتے ہیں۔

Shares: