بازار بنو قینقاع سے سری نگر تک ، تحریر فردوس جمال

6 سال قبل
تحریر کَردَہ

عہد نبوی مبارک ہے،مدینہ منورہ میں بنو قینقاع کا بازار سج چکا ہے،بازار میں ایک یہودی سنار کی دکان ہے،یہودی تاجر کی دکان میں اس کے چند یہودی دوست گپیں ہانک رہے ہیں،اسی دوران ایک مسلمان عورت دکان پر آتی ہے،یہودی تاجر کی شیطانیت جاگ جاتی ہے وہ مسلمان عورت سے چہرے کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتا ہے مسلمان عورت سختی سے منع کرتی ہے،نظریں بچا کر مکار یہودی مسلمان بہن کا آنچل کسی کیل کے ساتھ باندھ دیتا ہے جب وہ جانے کے لئے اٹھتی ہے تو بے پردہ ہو جاتی ہے وہ چیخنے چلانے لگتی ہیں دکان میں بیٹھے یہودیوں کے قہقہے پورے بازار میں سنائی دیتے ہیں دکان کے سامنے سے گزرتا ایک راہ گیر مسلمان یہ منظر دیکھ کر دکان کے اندر چلا آتا ہے اس کی ایمانی غیرت جاگ اٹھتی ہے اور وہ یہودی دکاندار کو قتل کر دیتا ہے،یہودی مل کر اس مسلمان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے شہید کر دیتے ہیں،یہ خبر رسول خدا تک پہنچتی ہے آپ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ یہودی بستی کا محاصرہ کرتے ہیں عہد شکنی کے باعث ان سب کو مدینہ منورہ سے نکال باہر کرتے ہیں،انہیں جلاوطن کرتے ہیں.

ایک مسلمان شخص ایک مسلمان بہن کے لئے جان تک سے گزر جاتا ہے جسے وہ جانتا بھی نہیں ہے کہ کون تھی،رسول خدا نے ان کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ مظلوم کی آواز پر لبیک کہنا ہے،ایک مسلمان بہن کی پکار پر رسول پاک
خود اس بستی کا محاصرہ کرتے ہیں.

90 ہجری ہے،حجاج بن یوسف فوجی کمانڈروں کے ساتھ ایک اہم میٹنگ میں ہیں،خصوصی ایلچی یہ پیغام لیکر داخل ہوتا ہے کہ شاہ جزیرہ یاقوت نے جو تحفے تحائف اور مسلمان عورتیں بھیجا تھا انہیں دیبل کے قریب بحری قزاقوں نے قیدی بنایا ہے ان قیدی عورتوں میں سے ایک نے آپ کو پکارا ہے کہ اے حجاج ہماری مدد کرو،ہمیں اس جہنم سے چھڑاؤ،حجاج بن یوسف اپنی نشست سے اٹھتے ہیں ان کی آنکھوں میں خون اترتا ہے،ان کا چہرہ غصے سے لال ہوتا ہے،اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو بلاتے ہیں ایک مسلمان بہن کی پکار پر بیس ہزار فوجیوں کا لشکر دے کر محمد بن قاسم کو دیبل کی طرف روانہ کرتے ہیں،اس ایک مسلمان بہن کی پکار راجہ داہر کی بادشاہت و تخت کا خاتمہ اور سندھ کی فتح کا سبب بن جاتی ہے.

223 ہجری ہے،عباسی خلیفہ معتصم باللہ اپنے شاہی تخت پر فروکش ہیں،خدام چاک و چوبند کھڑے ہیں،نبیذ کا دور چل رہا ہے،شاہی ایلچی نے آ کر خبر دی کہ عموریہ میں ایک مسلمان بہن رومیوں کی قید میں ہے وہ چیخ چیخ کر مسلمانوں کے خلیفہ کو پکار رہی ہے وامعتصماه !
معتصم باللہ کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے نبیذ کے گلاس کو پھینک دیتے ہیں لبیک اے میری بہن کہتے ہوئے وہ تخت سے اٹھ جاتے ہیں،فوج کے سپہ سالار کو بلاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ رومیوں کا سب سے مضبوط شہر کون سا ہے کہا جاتا ہے عموریہ نا قابل تسخیر شہر ہے،معتصم باللہ مسلمانوں کا لشکر لیکر عموریہ کی طرف بڑھتے ہیں پچپن دن کے طویل اور سخت معاصرے کے بعد شہر کو فتح کرتے ہیں،اس مسلمان بہن کو رومیوں کی قید سے نکالتے ہیں،ایک مسلمان بہن کی پکار مضبوط قلعوں کو شکست دینے اور شہر کا شہر فتح کرنے کا سبب بن جاتی ہے.

یہ ہمارا عہد رفتہ تھا کہ کیا بنو قینقاع بازار کا فرد تنہا کیا دیبل کی اینٹ سے اینٹ بجاتا جواں اور کیا عباسی بادشاہ ایک مسلمان بہن کی پکار پر سب نے لبیک کہا.

مگر

آج کشمیر کی کتنی مظلوم بہنیں اور کتنی بیٹیاں مدد کے لیے پکار رہی ہیں،اس آس میں کہ ان کے دینی بھائی مسلم دنیا کے غیرت مند حکمران ان کی آواز پر لبیک کہیں گے،لیکن ان کی پکار قید خانوں زندانوں اور گھر کی دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ جاتی ہے انہیں کوئی جواب نہیں ملتا ہے کہ لبیک میری بہنا!

ہندو آرمی چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرکے ان کے گھروں میں داخل ہوتی ہے.

وہ چاند چہرے جو کبھی آسمان کے چاند نے بھی نہیں دیکھے تھے ان چہروں پر ہندو فوجیوں کی ناپاک اور حیوانیت بھری نظریں پڑتی ہیں.

عصمتیں پامال اور آنچل لٹ رہے ہیں،گھروں میں کھانا نہ پینا،بچوں کے لئے دوا نہ علاج،چھ ہفتوں سے کشمیر ایک جیل خانہ بن چکا ہے،میڈیا اور امدادی تنظیموں کے لئے رسائی بند ہے،کرفیو ہے اور موت کا سناٹا ہے،مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے پروگرام چل رہے ہیں،شیوسینا اور آر ایس ایس کے غنڈے کشمیر پہنچ چکے ہیں.

کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں ایک بھی محمد بن قاسم نہیں کیا ساٹھ سے زائد مسلمان بادشاہوں میں ایک بھی معتصم باللہ نہیں؟ ایک بھی حجاج بن یوسف نہیں؟

کشمیری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے،ہماری منتظر ہے،لیکن یہ انتظار لمبا نہیں ہوگا.یہ قانون قدرت ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآں نہ ہوئے تو اللہ پاک ہماری جگہ کسی اور قوم کو یہ کام سونپ دیں گے.
تحریر فردوس جمال

Latest from بلاگ