جعفر زٹلی اور شہنشاہِ مغل فرخ !!! تحریر: رضوان الحق
جعفر زٹلی کا شمار اردو کے ” ابتدائی طنز ومزاح نگار” میں ہوتا ہے. زٹل کے معنی بکواس، لغو، مزاح ہے زٹل سے زٹلی جو کہ آپ کا تخلص تھا
زٹلی نے لکھنے کا آغاز اورنگزیب کے دور سے کیا. جعفر زٹلی ایک بے باک شاعر تھا. اورنگزیب پر بہت زیادہ تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی اچھی انتظامی صلاحیتوں پر کھل کر لکھا. اورنگزیب کے بعد کا دور مغلیہ سلطنت کے زوال کی داستان سے بھرا پڑا ہے. اور اسی دور میں جعفر زٹلی نے معاشی وسیاسی حالات، کمزور حکمت عملی اور ظلم وجبر کے خلاف اپنی آواز بلند کی شاعری کے ذریعے.
شہنشاہِ مغل فرخ سیر بہت ظلم کرتا تھا. حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی گردنیں کاٹ دی جاتیں، زبانیں کھینچ لی جاتیں اس دوران فرخ سیر نے ایک سکہ جاری کیا جس پر یہ درج تھا:
سکہ زدازفضل حق برسیم وزر
بادشاہِ بحروبر فرخ سیر
جعفر زٹلی نے جب یہ جملہ پڑھا تو اس کا دل مسوس کا رہ گیا کہ ایک طرف ظلم و ستم اور شہنشاہیت، جاہ وجلال وثروت کی آڑ لے کر
زٹلی نے اس شعر کی تحریف یوں کی
سکہ زد بر گندم وموٹھ ومٹر
بادشاہِ تسمہ کش وفرخ سیر
( یہ بادشاہ فرخ سیر تسمہ بنانے والا جس نے گندم، جو کی ایک قسم اور مٹر پر لگان/ ٹیکس لگائی ہے)
فرخ سیر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تسمے سے لوگوں کو پھانسی دیتا تھا. زٹلی نے اس کو حقیر تسمہ بنانے والا کہا. فرخ سیر کے لیے یہ شعر گالی بن گیا. مغل بادشاہ نے جعفر زٹلی کی پھانسی کا فرمان جاری کر دیا. اور پھر ایک شاعر ظلم وستم کا ساتھ دینے کے بجائے، حق کے لیے تختۂ دار پر چڑھ گیا.
بلاگ /کالم کی دم : یہ ایک غیر سیاسی اور ادبی بلاگ ہے اس کو آج کی سیاست سے نہ ملایا جائے.