راجن پور کے نواحی قصبہ فتح پور کی بستی سندھلانی بلوچ میں کاروکاری کے الزام میں فائرنگ سے ایک شادی شدہ یتیم لاوارث خاتون جاں بحق جبکہ ایک شخص شدید زخمی۔
راجن پور کے نواحی قصبہ فتح پور کی بستی سندھلانی بلوچ میں غیرت کے نام پر فائرنگ سے سسی نامی شادی شدہ یتیم لاوارث خاتون جاں بحق اور اللہ داد سندھلانی نامی شخص شدید زخمی جس کو منہ پر گولی لگی۔ مبینہ طور پر ناجائز تعلقات کے الزام میں دیور اور اس کے دیگر رشتہ داروں نے سسی نامی خاتون کو قتل کردیا مبینہ قاتلوں میں خلیل ۔مرزا اور صدیق نے ملکر خاتون اور زخمی شخص پر فائرنگ کی جس سے خاتون موقع پر گھر میں ہی جاں بحق ہوگئی جبکہ زخمی شخص اللہ داد سندھلانی کو کسی اور مقام پر دکان سے خریداری کرتے ہوئے فائرنگ کرکے مارنے کی کوشش کی گئی جو منہ پر گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گیا جس کو ریسکیو 1122 کی ٹیم نے ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا ہے جبکہ موقع واردات پر پولیس اسٹیشن صدر کی بھاری نفری ملزمان کی گرفتاری کے لیے پہنچ گئی ہے۔
جبکہ مقتولہ عورت کا کوئی قریبی رشتہ دار بہن بھائی ماں باپ بھی حیات نا ہے صرف نانا نانی زندہ ہیں جو غریب اور کمزور ہیں جبکہ قاتل دیور اور دیگر اس دیور کے رشتہ دار ہیں جو خود ہی مدعی اور خود ہی قاتل ہیں جو کسی بھی وقت کیس واپس بھی لے سکتے ہیں پنچایتی فیصلے میں بھاری رقوم ملنے کی صورت میں ۔
شنید میں یہ بھی آیا ہے کہ مبینہ طور پر ایسے کاروکاری کے الزامات صرف مخالف پارٹی سے اپنی دشمنیاں نبھانے یا بھاری رقوم وصول کرنے کے لیے کی جاتی ہیں جبکہ عدالتی فیصلوں سے پہلے ہی پنچایتی فیصلوں کے ذریعے بھاری جرمانے وصول کیے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک پاکستان کا پولیس اور عدالتی نظام اتنا مشکل اور لمبا ہے جس میں سب سے پہلے پولیس قاتل اور مقتولین سے رشوت کھاتی ہے پھر تفتیشی افسر اس کے حق میں اپنی رپورٹ لکھتا ہے جو زیادہ پیسے دیتا ہے اور جس کا سیاسی اثر رسوخ بھی ہوتا ہے کیونکہ سیاست نے بھی اس ملک کے قانون کو کبھی اپنے سے زیادہ طاقتور نا ہونے دیا ہے اور نا ہونے دیں گے کیونکہ اسی سے وہ اپنی سیاست کی دکانداری چمکاتے اور اپنے سیاسی مخالفین کو کچلتے اور اپنے حوارین کو بچاتے نظر آتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے قدم قدم پر وکیلوں اور عدالتی عملے کو پیسے دینا پڑتے ہیں اور پھر تاریخ پر تاریخ جس سے کئی کئی سال عدالتوں میں خوار ہونا پڑتا ہے غریب اور کمزور کو انصاف ملنا ناممکن ہی بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان میں انصاف خریدنا پڑتا ہے کبھی پولیس کو کھلا پلا کر تو کبھی وکیلوں کو تو کبھی عدالتی عملہ کو پھر ایک عدالت پھر بڑی عدالت پھر اس سے بڑی عدالت اور پھر اپیل اور آخر میں صدر پاکستان کو اپیل انصاف کے حصول اور اس کی تلاش میں نسلیں گزر جاتی ہیں ایک سے دوسری اور پھر تیسری مگر انصاف نہیں مل پاتا ہے۔ کیونکہ اس ملک اور قوم کے ساتھ ہمارے سیاستدان ہی مخلص نہیں ہیں جو پاکستان بننے سے اب تک ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ایسی قانون سازی اور ایسا نظام نا بنا پائے جس سے انصاف کا حصول جلد اور سستا ہو جائے پولیس میں سیاسی مداخلت ہے بیوروکریسی من پسند لگوائی جاتی ہے اپنے اپنے حلقے میں تاکہ من مرضی کے کام اور فائدے حاصل کیے جائیں ۔۔۔۔