رہے نام اللّٰہ کا جو قادر بھی ہے خالق بھی__!!! (تحریر✍🏻:جویریہ چوہدری)۔

0
42

آجکل گھر کی کچن سے لے کر ڈرائنگ روم تک…
میڈیا سے ایوانوں تک…
ملکوں سے عالمی فورموں تک__

صحت کے مراکز سے تحقیقی لیبارٹریوں تک ایک ہی بحث گردش کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ ہے کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنا…!!!
COVID_19
نے اس دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔

زندگی کا پہیہ ایک دم سے ایسا جام ہو گیا ہے کہ
پہلے جو کبھی ہر وقت سوٹ بوٹ کی تیاری
صبح صبح جاب کی جگہ پر پہنچنے کی فکر،فنکشن میں فیشن کا لحاظ و خیال۔۔۔شادی بیاہ کی دھوم دھام پر تبادلۂ خیال…
مرنے پر لمبی چوڑی رسومات کی ادائیگی کا غم
کسی کے نہ آنے کی کلفت…

دیکھ کر آنکھ چرا جانے کے شکوے…
وقت نہ دینے کی ناراضگی…
بازاروں کے ضرورت اور بلا ضرورت کے چکر…
بہنوں،بھائیوں پر گلوں کے طومار…

اب ایک طرف رکھ دیئے گئے ہیں اب عالم ہے اگر تو نفسا نفسی کا…
کوئی پاس ہو کر بھی قریب نہ آئے،
اتنے فٹ کا فاصلہ ضروری ہے…

ہاتھ ملانے سے گریز…
برتن کو اٹھاتے،ہاتھ لگاتے،دروازہ کھولتے،بند کرتے غرض ہر لمحہ اعصاب پر ایک ہی واہم سوار ہے کہ کہیں وائرس حملہ آور نہ ہو جائے…
ابہام و غلط فہمیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ کل دو آنٹیاں گلی میں نظر آئیں،ایک منہ لپیٹے اپنے گھر داخل ہو گئیں تو دوسری اندازِ شکوہ میں بولیں ہائے مجھے کونسا بیماری ہے کہ مجھ سے بولی بھی نہیں؟

ایک طرف گھروں میں رہنے کی ہدایات ہیں تو دوسری طرف دیہاڑی دار طبقہ پریشانیوں کے سائے میں صبح کا آغاز کر رہا ہے،روز کا روز کمانے والا اسی اُمید پر زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھتا ہے کہ جب تک سانس اور بدن میں قوت ہے، کما کر لے آئیں گے تو اب فاقوں کے ڈر سے مجبور و بے بس بیٹھے ہیں
راشن کی دکانوں پر سوشل ڈسٹینسنگ (social distancing) سے لا پرواہ غریب چند کلو آٹے یا دال چینی کے لیئے ہلکان ہے…!!!

میڈیا خبریں سجاتا ہے وائرس کی پرواہ نہیں راشن دے دو…
غرض ایسے طبقہ کی پر زور اعانت اور انہیں گھر کی دہلیز پر کچھ وقت کے لیئے یہ چیزیں فراہم کرنا حکومت کے لیئے ایک امتحان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات بھی اس نازک وقت میں دل کھول کر غرباء کی مدد کر سکتے ہیں…
اگر چہ صورتحال یہ ہے کہ تمام کاروباری مراکز بند ہونے کی وجہ سے ہر بندہ ہی اپنا اپنا رونا رونے اور معاشی سٹرکچر کو دھچکا لگنے پر نالاں دکھائی دیتا ہے…!!!

دنیا جب دیتی ہے تو ذلت کے دروازے یونہی کھلا کرتے ہیں لیکن یہ صرف خیر الرازقین کی شان ہے کہ ہر روز نئی شان سے مانگنے والوں کو عطا کرتا ہے اور بے حساب کرتا ہے،پر سکون کرنے والا دیتا ہے…
ایک دم سے ڈگریاں،اسٹیٹس،اور کاروبارِ زندگی غیر یقینی کی صورتحال سے دو چار ہیں اور مستقبل کے معاشی مناظر ذہنوں میں جھلملا رہے ہیں۔
دنیا بھر کی طاقتیں اور انہیں چلانے والے سبھی کونوں کھدروں میں چھپے بیٹھے ہیں…
دنیا تا حال علاج و دوا تیار کرنے سے قاصر اور بے بسی کی اتھاہ گہرائیوں میں نظر آ رہی ہیں…

گلوبل ویلیج کی اہمیت کے ثمرات گنواتے لوگوں پر ذمہ داریوں کا بار بھی اتنا ہی زیادہ ہے اور سب کو مل کر اس وبا کے عفریت سے سامنا کرنا ہے…
وبائیں اور بیماریاں تاریخ میں بھی بنی نوع انسان کو شدید متاثر کرتی رہی ہیں مگر اتنی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور پھیلاؤ کے امکانات کم تھے۔

لیکن کئی سوالات کو اپنے پیچھے چھوڑتی یہ وبا حضرت انسان کے لیئے ایک بڑا امتحان بھی ہے…!!!
ایک اور مفروضہ جو زیرِ بحث نظر آتا ہے کہ یہ حیاتیاتی ہتھیار ہے اور اسے خود لیبارٹریوں میں تیار کیا گیا ہے تو کیا یہ سوال بھی اہلِ عقل کی سوچ میں نہیں آتا ہے کہ اگر یہ کسی کی کسی کو نیچا دکھانے کی سازش ہی تھی تو وہ خود اس کا شکار کیوں ہو چکے ہیں؟
خود اس کے علاج سے معذور کیوں اور متاثرین میں سب سے آگے کیوں ہیں؟؟؟

تو تب بھی اللّٰہ کا قرآن ہی دل کو تسلی دیتا ہے کہ:
"دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے اور ان کی بری تدبیروں کی وجہ سے، اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے سو آپ اللّٰہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہیں پائیں گے…!!!”(فاطر:43)۔
انسان جتنے مرضی ترقی کے مدارج طے کر لے مگر رب کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں جا سکتا…

سو ان باتوں میں سمجھنے اور عبرت پکڑنے والوں کے لیئے بڑی نشانی ہے کہ بہر حال ہمیں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیئے اسباب اختیار کرنے کے بعد رجوع اللّٰہ کی ذات کی طرف ہی کرنا ہوگا کہ وہ ہم سے اس وبا کو ٹال دے،نجات دے اور اس کے نقصانات سے محفوظ فرمائے…!!!
تاکہ مشکلات میں گھری دنیا اور لوگوں میں سکوں کی سانس لوٹے…جو اوہام،ابہام اور اور غیر یقینی باتوں اور ماؤف اذھان کی جکڑ بندیوں میں جکڑی جا چکی ہے…!!!

کہ اب ماہرینِ نفسیات اور مائنڈ چینجر لوگوں کو میڈیا کی افواہوں سے بھی دور رہنے کی تجاویز دے رہے ہیں یہ بات بھی سچ ہے کہ بے پر کی باتیں بھی بسا اوقات بنے کاموں کو بگاڑ دیتی ہیں…ایک واقعہ کسی نے سنایا تھا کہ ایک ہوٹل سے لوگ کھانا کھایا کرتے ہیں، ایک آدمی جو دودھ پینے کا شوقین تھا وہاں سے روانہ دودھ لے کر پیتا…

ایک دن اتفاق سے دودھ ختم ہونے کے بعد ہوٹل والے نے ڈول میں دیکھا تو سانپ بیٹھا تھا،تو وہ ہل کر رہ گیا کہ پتہ نہیں وہ سب لوگ جو دودھ لے کر گئے ہیں بچیں گے کہ نہیں لیکن خیریت رہی لیکن وہ شخص جو دودھ پی کر گیا تھا پھر کبھی ہوٹل پر آیا تو اس شخص نے اسے یہ بات بتائی کہ اس دودھ میں جو تم نے پیا تھا،سانپ موجود تھا،یہ سنتے ہی وہ شخص پیچھے گِرا اور…

بھلے یہ واقعہ سچ ہو یا نہیں لیکن اپنے اندر ایک سبق ضرور رکھتا ہے کہ واقعتاً وہم اور انجانا خوف انسان کی قوتِ مدافعت کمزور کر دیتے اور یوں بھی بزدل کر دیتے ہیں کہ وہ سالوں اور مہینوں بعد بھی اس سے نکل نہیں پاتا…
اسلیئے احتیاط کیجیئے،تدابیر پر عمل رکھیئے لیکن یاد رکھیئے کہ تقدیر سے کوئی نہیں بھاگ سکتا اور وہ رب چاہے تو زہر کو بھی تریاق کر دیا کرتا ہے…

پہلے لوگ اتنے آگاہ نہیں ہوتے تھے جتنا کہ آج ہیں…
میڈیا سے کوئی خود کو کیسے دور رکھ پائے گا کہ پہلے تو کسی کو ٹی وی کا بٹن اُٹھ کر آن کرنا پڑتا تھا اخبار خرید کر لانا پڑتا تھا مگر اب میڈیا ہمارے ہاتھ اور بستروں میں ہے…
نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں پھسل کر اس کی خبروں سے جا لڑتی ہیں؟؟؟

بہر حال مثبت سوچتے رہیں،کچھ وقت کے لیئے احتیاط لازم ہے تو پوری احتیاط کو لازمی اختیار کریں…
اپنا اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کا خیال رکھیں…آسانیاں بانٹنے والے بنیں…مستحقین سے تعاون کر دیں…اور رب سے دعا و مناجات کا سلسلہ کبھی ہاں کبھی نہ ٹوٹنے دیں…یہی فلاح ہے__!!!

اس عمرِ رواں پہ سو امتحاں
کٹتے ہیں کئی لمحے گراں…
مگر اس زندگی کی رو میں
سانسوں کی آتی ضو میں__
اُمیدِ کے چراغ سرِ رہ رکھنا
ہواؤں کا رب رُخ بدل دے گا__!!!
==============================

رہے نام اللّٰہ کا جو قادر بھی ہے خالق بھی__!!!
(تحریر✍🏻:جویریہ چوہدری)۔

Leave a reply