سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے خلاف ضابطہ سرکاری گاڑی استعمال کی..اتھارٹی کو ایک ملین روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچایا گیا
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ریکوری کی سفارش کردی
بچپن میں کہانی سنتے تھے کہ بادشاہ اپنے قصیدہ گو سے خوش ہوے اور انعام کے طور پر اس ہیرے اور جواہرات سے نوازا
اج کل چونکہ جدید دور ہے ہیرے جواہرات نے بھی جدیدیت اختیار کر لی ہے اج جب بادشاہ اپنے قصیدہ گو سے خوش ہوتا ہے تو کسی کو چیئرمین پی ٹی وی، کسی کو چیئرمین پی ٹی اے، کسی کو چیئرمین پیمرا لگا دیتا ہے
ایسا ہی جناب نوازشریف نے کیا
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ابصار عالم کو چیئر مین پیمرا تعینات کیا تھا
ابصار عالم کی تعیناتی کو سپریم کورٹ نے بھی کالعدم قرار دیا تھا کیونکہ ابصار عالم چیئرمین پیمرا کیلئے مطلوبہ معیار اور مطلوبہ تعلیمی قابلیت پر پورا نہیں اترتے تھے جبکہ نواز شریف حکومت نے ابصار عالم کو قواعد کے برعکس اہم عہدے پر تعینات کیا تھا
ابصار عالم کی تقرری کے لیے 2 بار اخبارات میں اشتہار دیکر رولز اینڈ ریگولیشن ظاہر کرنے کی کوشش کی گئ ، وہ پہلے اشتہار کے تعلیمی معیار پر پورا نہ اترے تو دوسری بار کم اہلیت کا اشتہار جاری کیا گیا
آج کل کانسٹیبل کی بھرتی کے لئے بی اے کی شرط ہے، جس کی تنخواہ چند ہزار ہوتی ہے،
مگر اسی بی اے کی ڈگری پر ابصار عالم 33 لاکھ ماہانہ کا مراعات یافتہ پیکیج لیتے رہے جس میں سے ہر ماہ تنخواہ سولہ لاکھ روپے تھی جبکہ دیگر مراعات جس میں گھر ‘ ڈرائیور‘، گاڑی، ٹی اے ڈی اے‘ کلب ممبر شپ کارڈ وغیرہ ملا کر 33 لاکھ کا پیکیج تھا ۔ ابصار عالم چیئرمین پیمرا بننے سے قبل نواز شریف خاندان کی جی حضوری میں مصروف رہتے تھے بالخصوص اسحاق ڈار اور شریف خاندان کی خوشنودگی حاصل کرنے کیلئے ٹی وی پروگراموں میں ان کے حق میں پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہتے تھے جس کی وجہ سے انھیں نوازا گیا
یہ بہت آزمودہ بات ہے کہ جو لوگ بادشاہ کی طرف سے نوازے جائیں، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں آگے چلے جاتے ہیں، اس کا بادشاہ کو نقصان تو ہوتا ہے، فائدہ بالکل نہیں ہوتا۔ ابصار عالم نے اپنے دور میں ذاتی لڑائیاں بھی لڑیں اور ان لڑائیوں کا نزلہ اُن پر کم اور نواز حکومت پر زیادہ گرا۔
پیمرا کا کام چینلوں کو ضابطۂ اخلاق کے دائرے میں رکھنا ہے، لیکن ابصار عالم کا کام نوازشریف کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پہ پابندیاں لگانا ہوتا تھا
ابصار عالم ایک طرف حکومت اور نواز شریف کے خلاف پروگراموں پر گرفت کرتے رہے اور دوسری طرف انہوں نے عدلیہ کے خلاف وزیروں کی پریس کانفرنسیں ٹیلی کاسٹ ہونے دیں۔
گویا پیمرا ان حالات میں ایک پارٹی بن گیا تھا ریاستی اداروں میں اپنے چہیتوں کو بٹھا کر انہوں نے اپنی طرزِ حکمرانی کے بارے میں جو منفی ردِ عمل پیدا کیا اس کا نقصان تو انھوں نے خود اٹھایا لیکن جو نقصان نوازشریف کے قاسمی اور ابصار عالم جیسے قیصدہ گو نے اداروں کو پہنچایا اس کی بھرپائی ان سے وصولی کے زریعے ممکن ہے