اکثر و بیشتر ہم ایسی باتیں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ تم لوگ جو آئے روز کشمیر ایشو پر ٹرینڈنگ کرتے ہو، شور مچاتے ہو اس سے مسئلہ کشمیر اور اہل کشمیر کو کیا فائدہ ملتا ہے یا بھارت کا اس سے کیا نقصان ہوتا ہے ، جہاں امت مسلمہ کچھ نہیں کر رہی تو تمہارے ان ٹویٹر ٹرینڈز سے کیا ہوجائے گا. تو عرض ہے کہ بات کوشش یا جدو جہد کے چھوٹے یا بڑے ہونے یا اس سے دشمن کو پہنچنے والے نقصان کی نہیں ہوتی بلکہ سائیڈ کی ہوتی ہے کہ آپ کس کی سائیڈ پر کھڑے ہیں اگر تو آپ ابراہیم علیہ السلام پھر آپ کا جتن آگ کو بجھانے کے لیے ہوتا ہے اور اگر آپ صف نمرود میں ہیں تو پھر آپ کی فکر آگ کو بڑھاوا دینے کی ہوتی ہے چاہے وہ چھپکلی کی طرح اپنی پھونکوں سے ہو یعنی آپ نے اپنی ان چھوٹی بڑی کاوشوں سے باور یہ کروانا ہوتا ہے کہ آپ کس طرف کھڑے ہیں.

مزید پڑھیں مسئلہ کشمیر فقط زمین کے ٹکڑے کی لڑائی یا کچھ اور؟ ؟؟ محمد عبداللہ

مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان اس وقت جنگ نہ کرنا چاہتی ہے نہ ہونے دینا چاہتی ہے، گزشتہ روز بھی عمران خان نے دو ٹوک کہا کہ پاکستان سے جو مسلح مدد کرنے گیا وہ کشمیریوں پر ظلم کرے گا بلکہ ریاست پاکستان اس ایشو کو انٹرنیشنل کمیونٹی اور فورمز میں اجاگر کرکے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر ایک دہشت گرد اور ظالم ملک ڈکلیئر کروانا چاہتی ہے (جیسے اس نے مسلسل پراپیگنڈے کے ساتھ پاکستان اور پاکستان میں موجود شخصیات کے ساتھ کیا) تو اس عمل میں جب آپ چاروں طرف سے بے بس ہوں تو صف ابراہیم میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جو آپ کر سکتے ہیں کم از کم وہ تو کریں.

مزید پڑھیں کیا بھارت کشمیر کو آزاد کرکے پاکستان کی بقاء ممکن بنائے گا؟؟؟ محمد عبداللہ

ٹویٹر ٹرینڈز کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے نشریاتی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، ملکوں اور انفرادی شخصیات کی توجہ کشمیر پر مبذول کروانا مقصود ہے اور الحمدللہ پاکستانی سوشل ایکٹوسٹس یہ مقصد حاصل کررہے ہیں مسلسل ٹرینڈنگ سے کشمیر ایشو بین الاقوامی ایشو بنتا جا رہا ہے ہے اور ہر طرف کشمیر پر بات ہونا شروع ہوچکی ہے کہ آخر مسئلہ کیا ہے کیوں اتنے لوگ روز شور مچاتے ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی نشریاتی ادارے اور دنیا بھر کے صحافتی اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کشمیر پر بولنا شروع ہوچکے ہیں. مسلسل 46 دن کے کرفیو پر سوالات اٹھ رہے ہیں، یورپی یونین میں مسئلہ کشمیر پر بحث شروع ہوچکی ہے. دوسری بات کہ یہ موجودہ جنگ صرف نام کی ففتھ جنریشن وار نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ہے جس کی مختلف صورتیں اور جہتیں ہیں جہاں آپ کو کوئی بھی میدان خالی نہیں چھوڑنا ہوتا.

مزید پڑھیں سوشل میڈیا پر بھارت کا راج پاکستانی بے یارو مددگار — محمد عبداللہ

تیسری بات جو دوسری کے ساتھ ملتی ہے کہ قران کی آیت ہے جس کا ترجمہ اکثر ہم جیسے کم علم لوگ یہ کردیتے ہیں کہ کافر اسلام کو اپنی پھونکوں سے بجھان چاہتے ہیں تو اس میں پھونک کا نہیں منہ کا ذکر ہے مطلب میڈیم اور آج کا منہ یہ میڈیا ہی ہے اور آپ میڈیا پر اسلام و مسلمانوں کے خلاف یلغاریں دیکھ لیں تو اس بات کی بخوبی سمجھ آتی ہے اسلام.کے چراغ کو گل کرنے کے لیے اس میڈیا کا کیسے کیسے استعمال کیا جا رہا ہے. پھر اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں دنیا بھر کے پالیسی ساز ادارے اور تنظیمیں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کو مانیٹر کرتے ہیں اور اپنی پالیسیز کو مرتب کرتے وقت عوامی رائے کو نظر انداز نہیں کرتے. عرب اسپرنگ کے نام پر عالم عرب کی تباہی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جس میں بنیادی کردار اسی سوشل میڈیا ہی کا تھا، ان ٹویٹر ٹرینڈز کا ہی تھا لہذا اس میدان میں لڑنے والوں کی اگرچہ کوئی حیثیت اور ویلیو نہ ہو لیکن ان پر ہنسنے کی بجائے اگر ساتھ شامل ہوجایا جائے تو کم از کم اپنا تو پتا چل جائے کہ ہم کس صف میں شامل ہیں.

مصنف کے بارے میں مزید جانیے

Muhammad Abdullah
Muhammad Abdullah
Shares: